ولی رضا نصر امریکہ میں ایران اور مشرقِ وسطی سے متعلق بین الاقوامی امور کے استاد ہیں۔ ان کی دو ہزار نو میں تحریر شدہ کتاب ’اسلامی سرمایہ داری کا عروج‘ میں ولی نصر صاحب کا موقف تھا کہ مسلمان ممالک میں کاروباری طبقے کے پاس پہلے کی نسبت زیادہ سیاسی طاقت موجود ہے اور اس طاقت کو استعمال کر کے انتہا پسندی کے عفریت کو شکست دی جا سکتی ہے۔
اس موقف کو واضح کرنے کے لیے انہوں نے دبئی، ملایشیا، ترکی، ایران اور ابوظہبی کی مثالیں پیش کی ہیں۔ ظاہراَ تو یہ بات معنی طلب لگتی ہے لیکن اس نظریے میں کئی سقم پائے جاتے ہیں۔ عموماَ کسی بھی ملک کا کاروباری طبقہ ملکی حالات میں امن اور تواتر چاہتا ہے کیونکہ امن کے بغیر تجارت ممکن نہیں ہوتی۔
پاکستان کے معاملے میں البتہ گنگا ذرا اُلٹی بہتی ہے، چنانچہ شدت پسندی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے میں تاجر برادری کا بھرپور حصہ ہے۔ نوے کی دہائی میں کشمیر ی ’مجاہدین‘ کے لیے چندہ اکٹھا کرنا ہو یا ناموس رسالت کے نام پر ملک گیر ہڑتال کرنی ہو، پاکستان کی تاجر برادری ہمیشہ صفِ اوّل میں رہی ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ تاجر طبقے سے ہماری مراد درمیانی سطح کے کاروباری حضرات ہیں، بڑے بڑے کارخانوں کے مالکان اور کریانہ فروش نہیں.
ہمیں اپنی تاجر برادری کے کچھ بنیادی تضادات کو سمجھنے میں اکثر دشواری پیش آتی ہے۔ چور بازاری، ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ میں تو کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی لیکن نماز کا وقفہ بہرحال لازم ہے۔ اپنے ملازمین کی تنخواہ بڑھانے کے خیال سے ہی ہول اْٹھتا ہے لیکن مساجد کے لیے چندہ دینے میں کبھی بْخل سے کام نہیں لیا۔ حکومت کو ٹیکس دینا گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا ہے مگر ’مجاہدین‘ کے لیے جان بھی حاضر ہے۔
کتاب ’پنجابی طالبان‘ کے لکھاری مجاہد حسین کے مطابق سن دو ہزار دو میں لشکرِ طیبہ کو روزانہ لگ بھگ دو کروڑ چندہ مل رہا تھا۔ یہ چندہ میرے اور آپ کی ریز گاری سے نہیں بلکہ تاجر برادری کی فضیلت سے اکٹھا ہو رہا تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہی تاجر طبقہ ہے جس نے چند سال قبل ویلیو ایڈڈ ٹیکس VAT کے نفاذ کے خلاف کہرام برپا کردیا تھا۔ امریکی جھنڈوں کو ہفتہ وار آگ لگانے والے بیوپاری نیٹو کے ٹرکوں سے لُوٹا ہوا مال برسرِعام فروخت کرتے ہیں۔
چند احباب کے خیال میں پنجاب کے تاجر باقی صوبوں کے کاروباری حضرات سے زیادہ بنیاد پرست ہیں۔ پنجاب کا تاجر پنجابی شاؤنزم یعنی بالادستی کا علم بردار ضرور ہے مگر یہ تصور کرنا محض خام خیالی ہے کہ کراچی اور پشاور کے تاجر کوئی دودھ میں دھلے ہوئے ہیں، وہ بھی اِسی گھِن چکر کا حصہ ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کا تاجر طبقہ انتہا پسندی کی پشت پناہی میں منفرد نہیں اور ایسی مثالیں ہمیں ہمسایہ ممالک میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہندوستان میں ہندو مہا سبھائی تنظیموں کو ہمیشہ ’بازار‘ کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ ایران میں انقلاب کے بعد مذہبی راہنماؤں کے عروج اور بائیں بازو کی جماعتوں کے زوال میں کاروباری طبقے کی مرضی شامل تھی۔
تاریخ دان جناب حسن جعفر زیدی کے مطابق انگریز کے دور میں وسطی اور بالائی پنجاب میں منڈیوں کے ارد گرد شہر بسائے گئے اور ان شہروں کے تاجر طبقے نے پاکستان بننے کے بعد کے بگاڑ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ لاہور سے شائع ہونے والا ایک اخبار، جس نے نہ صرف پاکستان کو نظریاتی ریاست بنانے کا ٹھیکہ اٹھایا بلکہ غیر جمہوری اقدام کو پروان چڑھانے میں بھی مہارت حاصل کی، ہمیشہ سے کاروباری طبقے کے مفادات کا ترجمان اور محافظ رہا ہے۔
خدا لگتی تو یہ ہے کہ بنیاد پرستی پاکستان کے بالائی یا زیریں طبقے کا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے نو دولتی طبقے کا پھیلایا ہوا ناسُور ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیں پہلے اس گورکھ دھندے کو سمجھنا ہو گا اور تب ہی ہم کسی قسم کے حل تک پہنچ سکتے ہیں۔
خدا لگتی تو یہ ہے کہ بنیاد پرستی پاکستان کے بالائی یا زیریں طبقے کا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے نو دولتی طبقے کا پھیلایا ہوا ناسُور ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیں پہلے اس گورکھ دھندے کو سمجھنا ہو گا اور تب ہی ہم کسی قسم کے حل تک پہنچ سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment