American Travelogue (Urdu)


حصہ اول (جنوری 2017میں لکھا گیا)

دو ماہ قبل تعلیم اور امتحانات کے ضمن میں امریکہ آنا ہوا۔ اس طویل مسافت اور 
 مشقت کا منطقی انجام ابھی کچھ فاصلے پر ہے۔ اس دورانئے میں کچھ مشاہدات 
اور تجربات سے گزرنے کا موقعہ ملا، جن کی روداد پیش خدمت ہے۔

جس قصبے میں فی الحال قیام ہے، وہ عطر شیشہ، ضلع مانسہرہ سے ملتا جلتا علاقہ 
ہے۔اس علاقے میں چھے ماہ سردی اور بقیہ چھے ماہ شدید سردی پڑتی ہے۔ یہاں 
کے باسی زبان کو یوں لٹکا کر بولتے ہیں کہ سیالکوٹ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ اس 
قصبے سے قریبی علاقوں میں جانے کے لئے ایک منی بس چلتی ہے(جو ایبٹ آباد 
اور مانسہرہ کے درمیان چلتی ہائی ایس ویگنوں سے کچھ ہی بہتر ہے، فرق صرف یہ 
ہے کہ ان کی پشت پر ’چل پگلی، امجد تو میرا ہے‘ نہیں لکھا ہوتا)۔ قریبی قصبات 
کی مشترکہ آبادی واپڈا ٹاؤن لاہور سے کم ہے۔آبادی کم ہونے کے باعث زیادہ تر 
لوگ ایک دوسرے کوپہچانتے ہیں۔ یہاں قصبوں کا رقبہ Traffic Lights کی موجودگی یا عدم موجودگی سے متعین کیا جاتا ہے۔ چھوٹے قصبوں میں ایک یا دو 
ٹریفک لائیٹیں ہوں گی جب کہ بڑے قصبوں میں یہ تعداد بڑھ جاتی ہے۔     

 قریب ترین ہوائی اڈہ کم از کم دو گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے۔ اس شہر بنام Charleston تک کا رستہ ہو بہو ایبٹ آباد حویلیاں روڈ جیسا ہے لیکن سڑک دو 
طرفہ  اور بہترین حالت میں ہے۔ مقامی آبادی میں موٹاپہ کثرت سے موجود ہے۔ 
ایک فربہی مائل خاتون سے اس کی وجہ دریافت کی تو کہنے لگیں: کیونکہ ہم لوگوں کو 
کھانا بہت پسند ہے۔کھانے میں یہ لوگ پیزا، برگر،  بسکٹ نامی ایک شے اور سٹیک 
بہت شوق سے نوش کرتے ہیں (ریگل چوک کے پاس اتنی دوکانیں ’اصلی‘ دہی 
بھلوں کی نہیں ہو گی جتنی پیزا کی دوکانیں صرف ہمارے پڑوس میں ہیں)۔ ان 
اشیاء کے ساتھ ہر طرح کے مشروبات (پیپسی سے لے کر دختر عنا ب تک) کثرت 
سے پئے جاتے ہیں۔اس طرز کی خوراک کے باعث یہاں ذیابطیس کا مرض عام 
ہے۔ اس قصبے کا رقبہ کم ہے لہٰذا یہاں صرف مخصوص علاقوں میں پیدل چلنے کے 
لئے فٹ پاتھ موجود ہیں۔شام پانچ بجے کے بعد گلیاں سونی ہو جاتی ہیں (مرزا یار 
کے پھرنے کی اطلاعات غیر مصدقہ ہیں)۔  اس علاقے میں لوگ کم، ہسپتال اور 
چرچ زیادہ ہیں۔ ہسپتالوں سے باہر کوئی ایشائی فرد نسخے میں ڈالنے کو نہیں ملتا۔ 
ہسپتالوں میں ہندوستانی، پاکستانی اور عرب ڈاکٹروں کی تعداد زیادہ ہے کیونکہ اس 
طرز کے علاقوں میں کام کرنے سے گرین کارڈ ملنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں 
(اسی وجہ سے ہسپتال میں اتنے ٹام یا جان نہیں جتنے کھوکھر،رانا، پٹیل اور چوہدری 
ہیں)۔بس میں سفر کرنے والوں میں خاکسار اپنی طرز کا واحد شخص ہے۔ ان کے 
لئے میں اتنا ہی بڑا عجوبہ ہوں، کہ جتنا وہ میرے لئے ہیں۔اس اجنبیت کے باوجود 
لوگ خوش اخلاقی سے بات کرتے ہیں، موقعے کی مناسبت سے مذاق کرتے ہیں 
اور حال احوال دریافت کرتے ہیں۔رات کے پچھلے پہر ریل گاڑی کی مخصوص 
آواز قصبے بھر میں گونجتی ہے اور فلمی سین بنا دیتی ہے۔
مغربی ورجینیا نامی یہ ریاست امریکی خانہ جنگی (1865 -1861) کے دوران ورجینیا 
سے علیحدہ ہوئی۔ پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث یہاں زراعت ممکن نہیں لہٰذا 
زیادہ تر لوگوں کا روزگار ایک عرصے تک کوئلے کی کانوں سے وابستہ تھا۔بقیہ افراد 
معاش کی خاطر فوج میں بھرتی حاصل کر لیتے۔ گزشتہ کچھ دہائیوں میں کوئلے کی 
اہمیت میں کمی کے باعث یہاں بیروزگاری بہت بڑھ گئی(اس کے ساتھ ہی 
منشیات کا استعمال بھی بڑھا اور اب اس علاقے میں کالے یرقان کی شرح امریکہ 
بھر میں سب سے زیادہ ہے)۔ اس ریاست کی معیشت اب سیاحت پر منحصر 
ہے۔ یہاں سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب پچاس برس تک امریکی سینیٹ 
کے رکن تھے اور اس دوران وہ ترقیاتی کاموں کے لئے مختص کمیٹی کے سربراہ 
رہے۔ ان کی بدولت اس دور افتادہ ریاست میں عالی شان سڑکیں موجود ہیں 
(انہیں مغربی ورجینیا کا شہباز شریف سمجھا جا سکتا ہے)۔روز گار کی کمی کے باعث 
یہاں کی بیشتر آبادی نقل مکانی پر مجبور ہو گئی۔ جو بچ گئے، وہ اب ٹرمپ کے جیالے ہیں۔ 


امریکہ کے بقیہ حصوں کی مانند یہاں بھی کچھ چلن (یا بقول رؤف کلاسرہ، کلچرل 
شاکس)عام ہیں۔بس یا ٹرین کا دروازہ کھلے تو پہلا حق اترنے والوں کا ہے(ایک 
دن ایک بزرگ خاتون میرے اترنے سے پہلے بس پر سوار ہوئیں اور صورت حال 
معلوم ہونے پر انہوں نے مجھ سے معذرت کی)۔ اگر کسی نے مال /ہسپتال/گلی 
میں آپ کے قریب سے یوں گزرنا ہے کہ آپ کو اپنا رخ بدلنا پڑے تو وہ صاحب یا 
خاتون پہلے آپ سے معذرت کریں گے/گی۔پلیٹ فارم پر یا ٹرین میں اگر کوئی 
 سامان کے ساتھ کھڑا ہے تو اس کے لئے سیٹ چھوڑ دینا مناسب سمجھا جاتا 
ہے۔اگر آپ سے پہلے کوئی کسی دروازے سے گزرے گا تو وہ آپ کے گزرنے 
کے انتظار میں دروازہ تھام کر کھڑا رہے گا/گی۔راہ چلتے لوگ آپ سے یوں حال 
چال پوچھتے ہیں جیسے لنگوٹیے یار ہوں۔ کسی مقام پر کسی شخص سے نگاہیں ملیں تو وہ 
آپ کو مسکراہٹ کا تحفہ دیں گے(چاہے وہ آپ کو جانتے ہوں یا نہیں اور اس 
رویے میں جنس یا عمر کی کوئی تفریق نہیں)۔ کسی دوکان پر جائیں اور مطلوبہ چیز نہ 
ملے تو وہاں کسی بھی کام کرنے والے سے دریافت کریں، وہ آپ کی مطلوبہ چیز 
ڈھونڈنے کے لئے یوں بے تاب ہو جائیں گے کہ آپ کو شرمندگی محسوس ہونے 
لگے گی۔چار گاڑیاں ایسی ہیں جن کو سڑک پر کوئی اوورٹیک نہیں کرتا یا ان کے 
اشاروں پر رک جاتا ہے: پولیس، ایمبولنس، سکول بس اور فائر برگیڈ۔سڑک پر پہلا 
حق پیدل چلنے والوں کا ہے اور اگر Traffic Light سبز بھی ہے تو گاڑیاں پیدل 
چلنے والوں کے لئے رک جائیں گی۔ گاڑی کے ڈرائیور اور اگلی سیٹ پر موجود 
مسافر کو بیلٹ لازمی طور پر باندھنی پڑتی ہے ورنہ بھاری جرمانہ ہوتا ہے۔ 
 
سہولیات کی یہاں بھرمار ہے۔ ہمیں نئی سم خریدنے اور اسے چالو کرنے میں 
پندرہ منٹ لگے جب کہ بینک اکاؤنٹ آدھ گھنٹے میں کھل گیااور اس سے منسلک 
ڈیبٹ کارڈ ہمارے حوالے کر دیا گیا(حالانکہ ہمارے پاس شناختی دستاویز کے طور 
پر صرف ایک پاسپورٹ موجود ہے، لاہور میں اکاؤنٹ کھلوایا تھا تو شہزادی حسن 
بانو کی فرمائشوں سے زیادہ کشت کاٹنے پڑے تھے)۔ بینک میں رقم یا چیک جمع 
کروانے کے لئے برانچ میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ ATMمشینوں کے ذریعے 
یہ کام باآسانی کیا جا سکتا ہے۔ کچھ بینکوں نے یہ سہولت بھی دے رکھی ہے کہ 
اگر آپ کے پاس کوئی چیک ہے تو صرف اس کی تصویر کھینچ کر انہیں بھیج دیں، 
رقم آپ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہو جائے گی۔ نیو یارک،واشنگٹن،شکاگو اور دیگر 
بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کے لئے ایک کارڈ خرید لیں تو 
وہ کارڈ بسوں اور ٹراموں پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کارڈ میں رقم کم پڑ جائے تو ہر 
سٹیشن پر خود کار مشینیں موجود ہیں جہاں نقد یا کریڈٹ کارڈ کی مدد سے مزید پیسے 
ڈلوائے جا سکتے ہیں۔ آپ کو بس، ٹرین یا ہوائی جہاز کی ٹکٹ خریدنی ہو تو آپ 
مطلوبہ موبائل Appکے ذریعے یہ کام کر سکتے ہیں۔ یہاں اخبارات اور رسائل میں 
مختلف دوکانوں کی طرف سے مختلف اشیاء پر سیل کے کوپن چھپتے ہیں، جنہیں 
استعمال کر کے رقم بچائی جا سکتی ہے۔ اگر آپ گھر پر کھانا پکانا چاہتے ہیں تو یہاں 
ایسی سروس موجود ہے جو مخصوص کھانوں کے اجزائے ترکیبی آپ کے پتے پر 
پہنچا دے گی۔ریسٹورنٹ میں جائیں تو پینے کا پانی بلا قیمت حاصل کیا جا سکتا ہے 
(پینے کا پانی یوں بھی امریکہ بھر میں نلکے سے پیا جا سکتا ہے)۔کھانا آرڈر کریں تو اس 
کی مقدار اتنی وافر ہوتی ہے کہ لاہوریوں کو جان کے لالے پڑ جائیں۔ کھانے کے بعد 
البتہ ٹپ دینا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ 
 یہاں Amazon نامی عمرو عیار کی زبنیل پائی جاتی ہے جس کے پاس دنیا بھر کی اشیاء موجود ہیں اور کمپیوٹر یا موبائیل پر چند Clicks کی مدد سے آپ وہ اشیاء خرید سکتے ہیں۔معاشیات کے طالب علم Trust کی اہمیت سے واقف ہیں۔ امریکی کاروبار اس نظریے کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ نے کسی 
دوکان سے کپڑے یا جوتے خریدے اور آپ کو پسند نہیں آئے یا سائز کا مسئلہ ہے 
تو کچھ دن بعد بھی آپ رسید دکھا کر وہ کپڑے یا جوتے واپس کر سکتے ہیں (ہمارے بہت سے شریر دوست اس سہولت کا ناجائز استعمال کرتے ہیں)۔

 سہولیات اور آسائشوں کی چکا چوند کے باوجود یہاں سب کچھ ہرا ہرا نہیں ہے۔ 
بنیادی آمدن کمانے کے لئے لوگ صبح شام کام کرتے ہیں۔صحت اور تعلیم کے 
شعبوں میں یہاں بہت سے مسائل ہیں۔ اگر کسی حادثے کی وجہ سے آپ کو 
ایمبولنس منگوانی پڑ جائے تو اس کے لئے پیسے دینے پڑتے ہیں۔ ایمرجنسی میں چلے 
جائیں تو پاکستان کی طرح ڈاکٹروں پر رعب جھاڑ کے اپنا مریض پہلے نہیں دکھایا جا 
سکتا، کئی دفعہ آدھ گھنٹہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ میڈیکل اور ڈینٹل کی انشورنس الگ 
ہے۔اگر آپ کے پاس انشورنس نہیں تو آپ منہ اٹھائے کسی بھی ڈاکٹر کے پاس 
علاج کے لئے نہیں جا سکتے۔ یہ لازم نہیں کہ جو دوا آپ کے مرض کے لئے بہترین 
ہے، وہ آپ کے انشورنس پلان میں شامل ہو یا وہ FDA کی طرف سے منظور شدہ 
ہو۔ ہمارے ساتھ ہسپتال میں جو میڈیکل کے طالب علم کام کرتے ہیں، اگر 
انہیں آپریشن کے دوران سرجن کی بد احتیاطی کے باعث زخم لگ جائے تو انہیں 
اپنے علاج کے لئے اپنی جیب سے پیسے دینے ہوں گے۔ یونیورسٹی میں تعلیم کے 
لئے پیسے نہیں تو آپ سٹوڈنٹ لون لے سکتے ہیں لیکن بہت سے لوگ ساری عمر وہ 
قرض اتارنے میں لگا دیتے ہیں۔کچھ با ہمت لوگ یونیورسٹی کے دوران مختلف 
جگہ پارٹ ٹائم جاب کر کے اپنی فیس ادا کرتے ہیں۔منشیات کا استعمال امریکہ بھر 
میں بہت زیادہ ہے اور ہمارے کئی دوست ایسے ہسپتالوں میں کام کر رہے ہیں 
جہاں زیادہ تر مریض کسی نشے کا شکار ہو کر آتے ہیں۔پینسٹھ
 (65)سال کی عمر کے بعد لوگ Medicare نامی حکومتی انشورنس پلان حاصل 
کرنے کے اہل ہو جاتے ہیں لہٰذا ہسپتال میں بہت سے مریض اس عمر کے ملتے 
ہیں۔ ہسپتال میں ایک بہتر چیز یہ دیکھی کہ مریضوں کی مدد اور سہولت کے لئے رضا 
کار موجود ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر علاج معالجے یا مریض سے سلوک میں ذرا سی کوتاہی 
کریں تو ان پر ہرجانے کا مقدمہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ اس خطرے کے پیش نظر ہر 
قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے (کچھ احباب کے مطابق یہ مقدمے بازی غیر 
ضروری احتیاط کا باعث بنتی ہے) ۔ 

حصہ دوم


امریکہ کے متعلق ہماری معلومات ہالی وڈ فلموں اور ٹی وی ڈراموں سے کشید کردہ 
تھیں۔ پانچ برس قبل پہلی دفعہ بنفس نفیس امریکہ آنے کا موقعہ ملا تو حقیقت اور 
فسانے کے بیچ فرق واضح ہوا۔ سب سے پہلی چیز جس نے متوجہ کیا وہ امریکہ کی 
جغرافیائی وسعت ہے۔ بحر اوقیانوس سے بحر الکاہل تک پھیلے اس بر اعظم نما 
ملک میں تیس کروڑ افراد، پچاس مختلف ریاستوں میں مقیم ہیں۔ ریاستوں کا طول 
و عرض مختلف ہے اور کچھ ریاستیں رقبے کے اعتبار سے بڑی ہیں۔ نیو یارک 
ریاست کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک جانے کے لئے آپ کو گیارہ گھنٹے 
ڈرائیو کرنی ہو گی۔ اسی طرح اگر آپ شمال مغربی ریاست مین  (Maine)  کے 
ایک حصے سے دوسرے تک جانا چاہیں تو گاڑی پر کم از کم پندرہ گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ 
جہاز کے ذریعے امریکہ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کرنے میں پانچ 
سے چھے گھنٹے صرف ہو سکتے ہیں۔ ساحلی علاقوں کے قریب بڑے شہر قائم ہیں 
جب کہ اندرون امریکہ کافی حد تک اندرون لاہور جیسا ہے(کھلے ڈلے لوگ، سکڑتے 
شہر اور قدامت پسند معاشرہ)۔ لمبے سفر کے لئے زیادہ تر لو گ ہوائی سفر پسند 
کرتے ہیں۔ ملک بھر میں پانچ ہزار کے قریب ہوائی اڈے موجود ہیں (البتہ ان میں 
زیادہ تر بین الاقوامی معیار کے نہیں)۔ذاتی طور پر خاکسار زمینی سفر کو ہوائی سفر پر 
ترجیح دیتا ہے لیکن منزل کی جانب فاصلہ زیادہ ہو تو ہوائی سفر کے بغیر چارہ نہیں۔ 
اس باعث اب تک ہم درجن بھر ہوائی اڈوں سے نبٹ چکے ہیں۔ یہاں ہوائی 
اڈوں پر رش ہوتا ہے لیکن لاہور یا کراچی کی طرح دھکم پیل کا رواج موجود نہیں۔ 
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہوائی اڈے پر گاڑی پارک کرنے کے لئے گھنٹے کے 
حساب سے پیسے دینے پڑتے ہیں (پارکنگ کے لئے ملک بھر میں یہ چلن موجود 
ہے)۔


اپنی ائیر لائن سے بورڈنگ پاس لے کر آپ سیکیورٹی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ 
مقامی سفر کے دوران زیادہ تر ایئر لائنز صرف ایک بیگ چیک ان کروانے کی 
اجازت دیتی ہیں اور اگر ایک سے زیادہ بیگ ہو تو آپ کو اس کے لئے پیسے ادا 
کرنے ہوتے ہیں۔ سیکیورٹی کے لئے آپ کو دستی سامان سمیت سکینر سے گزرنا 
ہوتا ہے۔ دستی سامان میں کسی قسم کی مائع شے(پانی یا کوئی بھی مشروب) رکھنے کی 
اجازت نہیں اور اگر موجود ہو تو آپ کو شائستگی سے مطلع کیا جاتا ہے کہ اسے باجو 
کی گلی میں واقع ٹوکری میں بہا دیا جائے۔ سکینر سے گزرنے کے لئے آپ کو ایک 
مخصوص پوز بنانا پڑتا ہے جو دور سے دیکھنے پر یوں لگتا ہے گویا کسی نے آپ پر 
بندوق تان رکھی ہے اور آپ نے بے چارگی میں ہاتھ بلند کئے ہیں۔ ہوائی سفر کی 
مقبولیت کے باعث یہاں بہت سی ائیر لائنز سستی ٹکٹ فروخت کرتی ہیں۔ یہ 
سستی ٹکٹ جہاز کے لئے ہوتی ہے(یعنی آپ کی نشست مخصوص نہیں ہوتی) اور 
پہلے آئیے پہلے پائیے کے اصول پر عمل پیرا ہوا جاتا ہے۔ پرواز کے دوران آپ کو 
پانی اور مونگ پھلی کے ایک چھوٹے پیکٹ پر ٹرخایا جاتا ہے(اس کے برعکس بین 
الاقوامی پروازوں پر ماکولات اور مشروبات کی تعداد قدرے زائد ہوتی ہے)۔مقامی 
سفر کے دوران مسافروں کے بیگ چیک ہوتے ہیں اور چیکنگ کے بعد پیار بھرا 
ایک رقعہ آپ کے بیگ میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بیشتر بڑے ہوائی اڈوں سے میٹرو 
کے ذریعے اس شہر تک سفر کیا جا سکتا ہے۔ ہوائی اڈوں پر عارضی قیام کے 
دوران وہاں طعام کی سہولیات موجود ہوتی ہیں (یہ آسائشیں پاکستانی ہوائی اڈوں 
سے کئی گنا بہتر ہیں)۔ جہاز پر سواری کے دوران اور اترتے وقت نظم وضبط کا 
مظاہرہ دیکھنے کا ملتا ہے(یہ نظم و ضبط ابو ظہبی یا دبئی اڈے تک پہنچنے سے قبل ختم 
ہو چکا ہوتا ہے)۔

 ذاتی طور پر ہم امریکہ کے مشرقی ساحل پر واقع ایک یا دو کے علاوہ بقیہ تمام 
ریاستوں میں کچھ وقت گزار چکے ہیں اور ہر علاقے کے مخصوص طور طریقے ہیں۔ 
شمال مشرق میں مین(Maine) سب سے پہلی ریاست ہے اور اس کے شمال میں کینیڈا 
واقع ہے۔ مین قدرتی وسائل سے بھرپور ایک خوب صورت علاقہ ہے۔ ایک محتاط 
اندازے کے مطابق مین میں افراد کم اور قدرتی جھیلیں زیادہ ہیں۔ وہاں کا موسم 
نہایت ہرجائی ہے۔مقامی کہاوت ہے کہ اگر آپ کو موسم پسند نہیں تو پانچ منٹ 
انتظار کریں (کیونکہ موسم بہت جلد تبدیل ہوتا ہے)۔ اس ریاست میں سومالی پناہ 
گزینوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے۔ امریکی تاریخ کا ایک بدنما دھبہ یہاں افریقی 
النسل افراد کی غلامی کا باب ہے۔ سنہ 1861ء سے 1865 ء کے دوران امریکہ خانہ 
جنگی کا شکار تھا۔ ایک طرف ابراہام لنکن کی قیادت میں شمالی ریاستوں کا اتحاد تھا 
جو غلامی کا خاتمہ چاہتا تھا جب کہ دوسری جانب جنوبی ریاستوں کا اتحاد موجود تھا جو 
غلامی کے ادارے کی بقا پر مصر تھا۔ جنگ میں شمالی ریاستوں کو فتح حاصل ہوئی 
اور غلامی کے ادارے کا کچھ حد تک خاتمہ ممکن ہوا۔ امریکی خانہ جنگی سے قبل 
افریقی النسل افراد غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے شمال میں واقع کینیڈا کا 
رخ کرتے تو ریاست مین کے افراد ان کی ہر ممکن مدد کرتے۔ مین ایک زمانے میں 
کارخانوں کا مرکز تھا اور ان کارخانوں میں کینیڈا سے آئے فرانسیسی نژاد افراد کام 
کرتے تھے۔ زمانہ بدلا تو کارخانے بند ہوتے چلے گئے۔ اب مین کے کئی شہروں میں 
عالی شان عمارتیں کھنڈروں کی شکل اختیار کر رہی ہیں (کچھ مقامات پر ان عمارتوں 
کو میوزیم یا ریسٹورنٹ میں منتقل کیا جا چکا ہے)۔ فرانسیسی نژاد افرا د نے مین میں 
مستقل سکونت اختیار کی اور فی زمانہ وہاں کئی علاقوں میں فرانسیسی ہی بولی اور 
سمجھی جاتی ہے۔  

مین میں قیام کے دوران بحر اوقیانوس میں ایک بادبانی کشتی میں سواری کا موقعہ 
ملا(گئے وقتوں میں گولڈ لیف سگرٹ کی ڈبی پر ویسی کشتی کی تصویر ہوا کرتی تھی)۔ 

خاکسار کو تیراکی بالکل نہیں آتی اور اس سواری کے دوران جلد بازی یا بہادری کی 
غلط فہمی کے باعث لائف جیکٹ بھی نہیں پہنی تھی۔ کشتی کے مالک نے ہمیں 
ہدایت دی کہ سفر کے دوران کشتی کے کسی ٹھوس حصے کو تھام کر رکھیں۔ کشتی 
میں موٹر موجود تھی لیکن رخ کا تعین کرنے کے لئے بادبان استعمال کرنے پڑتے 
اور ان بادبانوں کو کنٹرول کرنے کا ذمہ کشتی کے مالک اور باقی سواریوں پر تھا۔ 
ابتدا میں یہ تجربہ بہت راحت انگیز معلوم ہوا لیکن جلد ہی تند وتیز لہروں نے ثریا 
سے زمین پر ہم کو دے مارا۔ کشتی میں موجود آلے کے مطابق اس وقت ہوا تیس 
کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی۔ ہم لہروں پر ہلکورے کھا رہے تھے جب 
کہ ہمارے میزبان ہمیں یقین دلانے کی بھر پور کوشش میں مصروف تھے کہ یہ کشتی 
ڈوب نہیں سکتی(بلکہ الٹ بھی نہیں سکتی، کیونکہ اس کا وزن بہت زیادہ تھا)۔ 
طوفان کچھ ٹلا تو ہم عرشے سے اتر کر کشتی کے اندرونی حصے کی جانب بڑھے اور 
دیکھا کہ وہاں قیام و طعام کا بندوبست موجود ہے۔ ہمارے میزبان نے بتایا کہ وہ 
آئندہ دو ہفتے اس کشتی میں گزاریں گے۔موسم گر ما میں امریکہ بھر سے امیر لوگ 
کیمپنگ کرنے مین کا رخ کرتے ہیں کیونکہ موسم نہایت خوش گوار رہتا ہے۔ وہاں 
جنگل نما علاقے میں جابجا خوب صورت گھر دیکھنے کو ملتے ہیں جو دراصل گرمیوں 
 میں مین کا رخ کرنے والوں نے خرید رکھے ہیں۔ امریکہ کو معاشی عدم تناسب کا 
نمونہ سمجھا جاتا ہے اور مین میں یہ تضاد باآسانی واضح ہوتا ہے۔

حصہ سوم  (اپریل 2017)

مغربی ورجینیا میں ایک ماہ گزارنے کے بعد میں نے پڑھائی کی نیت سے مایامی کا رخ 
 کیا۔ ڈھائی ماہ کے اس دورانئے میں زیادہ وقت مایامی یونیورسٹی میں گزرا۔ مایامی، 
امریکہ کی جنوب مشرقی ریاست فلاریڈا میں واقع ہے۔اس ریاست کو ’سن شائن 
سٹیٹ‘ کہا جاتا ہے کیونکہ جب باقی ملک میں شدید سردی پڑ رہی ہو تویہا ں سورج 
پوری آب وتاب سے چمک رہا ہوتاہے۔ ریاست فلاریڈا  ا پنے ساحلی علاقوں 
(Beaches) کے باعث مقبول ہے اور جب بھی کسی سے مایامی کا ذکر کیا جائے تو 
پہلا سوال بیچ کے متعلق پوچھا جاتا ہے۔ فلاریڈا میں بہت سے چھوٹے جزیرہ نما 
علاقے موجود ہیں جنہیں کی(جمع:کیز)کہا جاتا ہے۔ ان میں سے کی ویسٹ  (Key West
 ) جنوبی ترین ہے اور وہاں سے نوے میل کے فاصلے پر کیوبا موجودہے۔ کی 
ویسٹ، مایامی سے لگ بھگ دو سو میل دور واقع ہے اوروہاں جانے والی سڑک 
کے دونوں اطراف سمندر  واقع ہے (کئی ہالی وڈ فلموں میں یہ منظر دیکھنے کو ملتا 
ہے)۔ کی ویسٹ میں معروف امریکی لکھاری ارنسٹ ہیمنگوے نے اپنی زندگی 
کے دس برس گزارے تھے اور ان کا گھر وہاں میوزیم کی صورت میں محفوظ کر دیا 
گیا ہے۔ کی ویسٹ کے ساحل پر غروب آفتاب کا منظر دیکھنے ایک مجمع اکٹھا ہوتا 
ہے۔ مایامی میں بہار کا موسم قیامت خیز ہوتا ہے، بقول احمد ندیم قاسمی، ’پھول 
کھلتے ہوئے نظر آتے ہیں جہاں تک دیکھوں‘۔  مایامی اور اس کے گرد و نواح میں 
کچھ عرصہ گزارنے کے بعد قیاس ہے کہ امیر خسرو کو ویزہ مل جاتا تو ’اگر فردوس بر 
روی زمین است‘ والا شعر مایا می کی شان میں لکھا جاتا، یا میر تقی میر کو یہاں قیام 
کا موقعہ ملتا تو دلی کی جگہ مایامی کو ’عالم میں انتخاب‘ کا لقب دیا جاتا۔ کیوبا سے قربت 
کے باعث گزشتہ صدی میں کیوبن ’انقلاب‘ اور اس کے بعد بے گھر ہونے والوں 
کی وسیع تعداد نے مایامی کو اپنا مستقر بنایا۔ پنجابی محاورے کے مطابق یہاں پتھر 
اٹھاؤ تو دو کیوبن برآمد ہوتے ہیں۔ انیس سو اسی کی دہائی میں مایامی منشیات کی 
بہتات کے باعث بدنام ہوا اور اب بھی اس شہر میں جرائم کی شرح امریکہ بھر 
میں سب سے زیادہ ہے(ہالی وڈ کی مشہور فلمScarfaceاسی کی دہائی میں مایامی کا 
ایک عکس ہے)۔ اسی وجہ سے شام کے وقت میٹر و میں پولیس اہل کار گشت 
کرتے رہتے ہیں۔ 

دیگر بڑے امریکی شہروں کی طرح مایامی کا ایک مرکزی حصہ ہے جو بلند وبالا عمارتوں 
پر مبنی ہے۔ نیو یارک اور شکاگو کے بعد مایامی کی Skyline امریکہ میں سب سے بڑی 
ہے۔ مرکز سے پرے جائیں تو رہائشی علاقہ دور تک پھیلا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ مایامی 
شہر اور مایامی بیچ بظاہر ایک شہر ہیں لیکن یہاں بیچ کو علیحدہ علاقہ تصور کیا جاتا 
ہے(اور وہاں جانے کے لئے طویل پل پار کرنے پڑتے ہیں، کچے گھڑوں پر سفر 
ممکن نہیں)۔شہر میں بات چیت کی زبان ہسپانوی ہے۔ لوگ انگریزی سمجھتے 
ضرور ہیں لیکن روانی سے بات ہسپانوی میں ہی ہوتی ہے۔کیوبا کے علاوہ جنوبی 
 امریکہ کے دیگر ممالک سے بہت سے لوگ اس شہر میں آباد ہیں۔ کئی مواقع پر’زبان 
یار من ہسپانوی و من ہسپانوی نمی دانم‘ پکارنے کا ارادہ کیا لیکن اس پر عمل نہ کر 
سکا(یعنی ’میں تیرا حسن، تیرے حسن بیاں تک دیکھوں‘ کا موقعہ نہیں ملا)۔مایامی 
کی ثقافت او ر طرز معاشرت پر امریکی سے زیادہ کیوبن اثر ہے۔ سمندر سے شہر کی 
 جانب چھوٹی نہریں نکالی گئی ہیں لہٰذا ہر دو کلومیٹر بعد ایک عدد نہر دیکھنے کو ملتی 
 ہے۔ریاست فلاریڈا مگر مچھوں کے باعث مشہور ہے۔ مایامی کے قریب ایک 
نیشنل پارک واقع ہے جہاں آپ مگر مچھوں سے بالمشافہ ملاقات بھی کر سکتے ہیں۔ 
اس کے علاوہ اگر آپ صبح کے وقت کسی نہر کے قریب سے گزریں تو آپ کو 
چھپکلی اور مگر مچھ کے بیچ کی کوئی مخلوق دھوپ میں سستاتی ملے گی۔ اس مخلوق کو 
دیکھ کر گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ انسانوں کے برعکس کسی کو نقصان نہیں 
پہنچاتی۔پڑھائی کی مصروفیت کے باعث ساحل پر جانے کا موقعہ صرف ایک دفعہ 
مل سکا۔ اوکلاہوما سے میڈیکل کالج کے ہمدم دیرینہ مایامی آئے تو ان کی وساطت 
سے ہمیں بھی ساحل دیکھنے کا موقعہ ملا۔ وہاں لوگ بڑے سائز کی پتنگوں کی مدد سے 
سمندر کی لہروں پرسواری کر رہے تھے۔ تیراکی ہمیں آتی نہیں لیکن سمندر دیکھا کر 
دل مچلا اور کم گہر ے پانی میں کچھ دیر وقت گزارا۔ سمندر کا پانی ثبات سے زیادہ تغیر 
کا قائل ہوتا ہے لہٰذا قدم جمے رہنے کے باوجود حرکت کا احساس ہمہ وقت موجود 
رہتا ہے۔  

مایامی یونیورسٹی کئی ایکڑ کے رقبے پر پھیلی ایک نہایت خوبصورت درسگاہ ہے۔ 
یہاں قدرتی اور انسانی، دونوں طرح کا جمال دیکھنے کو ملتا ہے، صلائے عام ہے 
یاران نکتہ دار کے لئے۔ مقامات آہ وفغاں کا جزوی ستر بہر حال موجود ہوتا ہے 
(یعنی صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں)۔ یہ اور بات کہ چشم تخیل کو 
زیادہ تکلیف دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ دنیا بھر سے طلبہ اس درسگاہ میں پڑھنے 
آتے ہیں۔ یونیورسٹی میں چہل قدمی کریں تو کم از کم پانچ مختلف زبانیں سننے کو ملتی 
ہیں (ایک دن وہاں ’بے بی ڈول میں سونے دی‘ سننے کو ملا)۔ وہاں بدھ کے روز 
ایک فارمرز مارکیٹ سجتی ہے جہاں مختلف علاقوں کے پکوان دستیاب ہوتے 
ہیں۔ وہاں ایک خاتون ہندوستانی کھانے کا سٹال لگاتی ہیں جہاں ایک پراٹھا بارہ 
ڈالر اور چکڑ چھولے کی ایک پلیٹ آٹھ ڈالر میں ملتی ہے۔ لاہور میں مزنگ چونگی 
سے یہ اشیا ایک ڈالر میں مل جاتی ہیں اور ذائقہ بھی بہتر ہوتا ہے۔ شام کے وقت 
مارکیٹ ختم ہونے کے بعد وہاں سے گزرا جائے تو صفائی کے باعث یہ جاننا 
مشکل ہوتا ہے کہ کچھ گھنٹے قبل یہاں ایک بازار سجا تھا(اس کے برعکس شادمان 
کالونی لاہور میں اتوار بازار کی باقیات سارا ہفتہ وہیں پڑی رہتی ہیں)۔ امریکی 
یونیورسٹیوں کا ایک پہلو جو مجھے متاثر کرتا ہے، وہ ان تک رسائی کی آسانی ہے۔ میں 
بحیثیت سیاح امریکہ کی بہترین یونیورسٹیوں کی سیر کر چکا ہوں اور کسی موقع پر مجھ 
سے کسی نے شناختی دستاویزات کا مطالبہ نہیں کیا۔ یونیورسٹی کی عمارات میں 
داخلے کے وقت مناسب دستاویز ہونا ضروری ہے لیکن ان عمارات کے باہر 
گھومنے پر کوئی پابندی نہیں۔ امریکہ بھر میں میٹرو کا ایک سٹاپ یونیورسٹی کے قریب 
ضرور ہوتا ہے تاکہ طلبہ کی آمد ورفت میں آسانی رہے۔ میٹرو کے حوالے سے یہ بات 
 سمجھ آئی کہ صرف ایک بس یا ٹرین روز مرہ ضروریات کے لئے ناکافی ہے اور اس 
سے منسلک سہولیات اتنی ہی اہمیت کی حامل ہیں جتنی میٹرو بس یا ٹرین۔ مایامی 
میٹرو ایک مخصوص علاقے تک جانے کے لئے کافی ہے لیکن اگر کہیں اور جانا ہو تو 
 آپ بس پر بھروسہ نہیں کر سکتے(کیونکہ وہ پاکستان کی طرح ڈرائیور کی مرضی سے 
چلتی ہیں)۔

ان حالات میں اوبر (Uber) یا لفٹ(Lyft) جیسی سروسز کا استعمال کرنا پڑتا 
ہے۔ڈھائی ماہ کے عرصے میں شائد بیس دفعہ میرا پالا ان گاڑیوں سے پڑا۔ ان کے 
زیادہ تر ڈرائیور کیوبن تھے اور زیادہ تر افراد کچھ نہ کچھ انگریزی جانتے تھے۔ کچھ ڈرائیور 
گپ شپ کے شوقین جب کہ کچھ اپنے کام سے کام رکھنے والے ملے۔ابتدائی چند 
تجربات کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ ان افراد سے اپنی ٹوٹی پھوٹی ہسپانوی زبان 
میں بات کی جائے۔ایک کیوبن ڈرائیور سے کیوبا کے متعلق بات ہوئی تو انہوں 
نے وہاں موجود ’پیشہ ور‘ خواتین کے متعلق ایسی باتیں بتائیں جو شرفاء کی محفل ہی 
میں زیر بحث آ سکتی ہیں۔ ایک کیوبن خاتون ڈرائیور سے صدر ٹرمپ پر بات ہوئی تو 
انہوں نے پہلا سوال پوچھا: تمہارے پاس قانونی کاغذ موجود ہیں ناں؟ ایک کولمبین 
خاتون نے بتایا کہ وہ اوبر چلانے سے قبل بیس برس تک سولہ ویلر ٹرک چلایا کرتی 
تھیں اور ان سے اس موضوع پر دلچسپ باتیں سننے کو ملیں۔ انہیں بتایا کہ ان کی 
عمر کی خواتین ہمارے ہاں ہر کام چھوڑ کر چارپائی کو اپنا بسیرا بنا لیتی ہیں تو وہ بہت 
محظوظ ہوئیں اور ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ نما ہسپانوی گیت گنگنانے لگیں۔ ایک 
روز میں کسی وجہ سے سخت پریشان تھا او ر ایک دوسری جگہ جانے کے لئے اوبر 
میں بیٹھا تو زبان سے لاعلمی کے باوجود ان صاحب نے مجھے دلاسا دیا، موبائل کی 
چارجنگ کے لئے اپنا اڈاپٹر اور کھانے کے لئے چاکلیٹ پیش کی۔ ایک بزرگ وار 
انگریزی سے نابلد تھے اور انہیں میرے علاوہ ایک اور سواری کو پک کرنا تھااور 
اس سواری کو ہسپانوی بالکل سمجھ نہیں آتی تھی، لہٰذا مجھے ان کے غیر سرکار ی 
مترجم کی حیثیت سے فون پر انگریزی میں بات کرنی پڑی۔ ایک بزرگوار نے بتایا کہ 
وہ ایک کمپنی سے اچھے عہدے پر ریٹائر ہوئے تھے لیکن فراغت راس نہ آئی تو 
انہوں نے یہ شعبہ اپنایا۔ ایک بات پر البتہ تمام ڈرائیور بلا تفریق جنس و زبان 
متفق تھے:میامی کی ٹریفک سے نبٹنا کسی عذاب سے کم نہیں۔

مایامی میں کسی کو بتاتا کہ میں صرف ٹرین پر یا پیدل سفر کرتا ہوں تو مجھے عقل سے 
پیدل قرار دیا جاتا تھا۔ سائیکل سوار بھی اس شہر میں بہت ہیں۔ ہر مہینے، آخری 
 جمعے کی شام سائیکل سواروں کا ایک قافلہ شہر میں نکلتا ہے۔ یہ سلسلہ Critical Mass نامی تحریک کا حصہ ہے (آ جا تے بہ جا سائیکل تے،شائد اس تحریک کا نعرہ 
ہے) اور لاہور میں بھی اس تحریک کے تحت چند جانباز عام طور پر اتوار کی صبح 
شہر کی سڑکوں پر سائیکل سواری کے لئے نکلتے ہیں۔ خاکسار کو لاہور میں اس   کارووائی کا حصہ بننے کی کبھی توفیق نہ ہوئی لیکن مایامی میں ہم بھی اس قافلے کا حصہ 
بنے۔ یہ قافلہ ایک مقررہ جگہ سے شروع ہوتا ہے اورایک مخصوص راستے پر سفر 
کے بعد اسی جگہ منتج ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگ اپنی سواری(یعنی سائیکل) لے کر آ
تے ہیں لیکن ہم جیسے شوقین مزاجوں کے لئے سائیکل کرائے پر لینے کی سہولت 
موجود ہوتی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق سات سو افراد اس قافلے میں ہ
مارے ساتھ تھے اور ان شرکاء میں ہر عمر، جنس اور نسل کے لوگ موجود تھے۔ کارووائی کے منتظمین نے سفر کا نقشہ شہری انتظامیہ کے ساتھ مشاورت کے بعد 
طے کیا تھا لہٰذا جہاں سے ہم گزرے، سڑک کا وہ حصہ عام ٹریفک کے لئے بند تھا۔ پندرہ کلومیٹر کا وہ خوشگوار سفر ایک ناقابل فراموش واقعہ تھا۔
کیوبن خوراک میں ہم سبزی خوروں کے لئے صرف ابلے ہوئے چاول اور سرخ 
لوبیا ہی دستیاب ہوتا ہے(چونکہ وہ بڑا گوشت بہت شوق سے کھاتے اور پکاتے 
ہیں) لیکن ہم نے مختلف جنوبی امریکی کھانے چکھے جن میں مرچ مصالحے کا زیادہ 
استعمال نہیں کیا جاتا۔ امریکہ بھر سے لوگ ساحل سمندر کا مزہ لوٹنے اور ساگر ومینا 
سے لطف اندوز ہونے مایامی آتے ہیں لیکن یہاں دیکھنے اور کرنے کا ایسے بہت 
سے کام ہیں جن کے لئے ایمان خطرے میں نہیں ڈالنا پڑتا۔ 

حصہ چہارم   


ثقافتی اعتبار سے مایامی کا درجہ نیویارک، شکاگو یا لاس اینجلس سے بہت کم ہے۔ 
اس کے باوجود یہاں آرٹ گیلریاں، میوزیم اور دیگر ثقافتی سرگرمیاں جاری رہتی 
 ہیں۔ اپریل کے مہینے میں یہاں ثقافتی سرگرمیاں عروج پر ہوتی ہیں۔ اس مہینے کا 
آغاز ایک ’مشاعرے‘ سے ہوتا ہے۔ اس مشاعرے میں ہماری طرح شعراء سٹیج پر گاؤ تکیہ لئے نہیں بیٹھے ہوتے بلکہ اپنی باری آنے پر کچھ نظمیں سناتے ہیں، 
داد وصول کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ واہ واہ اور مکرر کی بجائے تالیوں 
 سے کام چلتا ہے۔ ان شعراء کی شاعری سیاسی بھی ہو سکتی ہے اور ذاتی  
نوعیت کی بھی۔ مشاعرہ کھلے تھیٹر میں ہوتا ہے اور درمیان میں کرسیوں کی جگہ 
چھوڑ کر باقی جگہ کھانے پینے کے سٹال اور مختلف سول سوسائٹی تنظیموں کے 
سٹال موجود ہوتے ہیں۔ مایامی میں ایک علاقہ ون ووڈ  (Wynwood)  نامی ہے جو 
اب سے کچھ برس قبل منشیات کی آماجگاہ تھا لیکن اب مقامی حکومت کی کوششوں 
کے باعث آرٹ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ وہاں کی دیواروں پر دنیا بھر کے آرٹسٹوں 
نے Wall Art بنایا ہے اور کئی دیواریں حقیقت سے بہتر لگتی ہیں۔ اس علاقے 
کے قریب ہی مایامی کا ڈیزائن ڈسٹرکٹ ہے جہاں فن تعمیر کے خوب صورت 
نمونے دیکھنے کو ملیں گے۔اس علاقے میں یورپی طرز کی کافی شاپس موجود ہیں جہاں 
ہر وقت کسی نہ کسی موضوع پر بحث چل رہی ہوتی ہے۔ ہر ماہ آخری بدھ کی شام، 
دنیا کے مختلف حصوں سے Short فلموں کی نمائش بھی مایامی کے ثقافتی کیلنڈر کا 
حصہ ہے۔ اس کے علاوہ  Independent  فلموں کا فیسٹول بھی ہر سال مارچ کے 
مہینے میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔مایامی میںCoral Gables نامی علاقہ لاہور کے گلبرگ 
کی طرح ہے، جہاں دنیا بھر کے برینڈز دستیاب ہیں اور بین الاقوامی ریسٹورانٹ 
واقع ہیں۔ اس کے قریبCoconut Grove یا ’ناریل کا جھنڈ‘ نامی ایک علاقہ موجود ہے جہاں ہماری رہائش تھی۔ اس علاقے میں ہر سال بہار کے موسم میں 
ایک میلہ منعقد ہوتا ہے۔

مایامی شہر جنوبی اور شمالی حصوں میں تقسیم ہے۔ جنوبی حصے میں شہر کا زیادہ تر 
حصہ، کالج، یونیورسٹیاں، ہسپتال، میٹرو وغیرہ موجود ہیں جب کہ شمال مغربی حصے 
میں کم مراعات یافتہ طبقہ آباد ہے اور اس علاقے میں جرائم کی سطح بلند ہے۔ اگر 
آپ شہر کے جنوبی حصے میں ہی وقت گزاریں تو یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ شمال 
میں غربت کی کیا کیا اشکال موجود ہیں۔مایامی شہر سے نکلنے کے لئے ہائی وے I-95 
کا رخ کریں تو اس کے ایک طرف جنوبی مایامی اور اس کی عالی شان عمارات اور 
دوسری طرف غریبوں کی بستی ملے گی جس میں زیادہ تر رہائشی افریقی النسل امریکی 
ہیں۔ جنوبی حصے میں ’بے گھر‘افراد کی بڑی تعداد میٹرو سٹیشنوں کے گرد جمع ملے 
گی۔ بے گھر افراد امریکا کے ہر بڑے شہر میں موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ اپنا بوریا 
بستر ساتھ رکھتے ہیں اور جہاں ٹھکانہ میسر ہو، بستر بچھا کر رات گزار لیتے ہیں۔ بقیہ 
افراد آپ کو رات کے وقت میٹرو سٹیشنوں کے گرد بنچوں اور تھڑوں پر سوتے 
ملیں گے۔ یہ افراد،سرمایہ دارانہ نظام اور معاشی عدم توازن کے مرض کی علامات یا 
محسن نقوی کے الفاظ میں ’حالات کی قبروں کے کتبے‘ہیں۔ ایک محدود اندازے 
کے مطابق صرف مایامی شہر میں ان بے گھر افراد کی تعداد چار ہزار کے قریب 
ہے۔مایامی شہر کئی دفعہ تعمیر اور تعمیر نو کے مراحل سے گزرا ہے لہٰذا غربت اور 
امارت کا تعین صرف علاقے کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ کئی بظاہر متمول علاقوں میں 
بھی آپ کو لوگ بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔ ایک دفعہ Wynwood  میں کافی پینے کا 
موقعہ ملا اور آدھ گھنٹے کے دوران دو مختلف افراد سے پالا پڑا جو کمائی کی تلاش میں 
دربدر پھر رہے تھے۔ ان میں ایک صاحب تاش کے پتوں سے کرتب دکھا نے کے 
ماہر تھے اور دوسرے صاحب فالتو لوہا اکٹھا کر کے اس سے زیورات تراشنے کا کام 
کرتے تھے۔ اپنی بساط کے مطابق ان کی مدد کی لیکن اس سے قبل ان کے فن کا 
مظاہرہ دیکھا اور ان کی زندگیوں کی کہانی سنی۔ مایامی شہر کے باسی اپنی زندگیاں 
ایک گرداب میں گزارتے ہیں اور کوشش کے بغیر کسی دوسرے گرداب کے افراد 
سے ملاقات مشکل ہوتی ہے۔ یہاں کے باسیوں کے مطابق مایامی میں رہنے کے 
لئے ایک خاص قسم کے باولے پن کی ضرورت ہے، وگرنہ آپ بہت جلد یہاں 
سے بھاگ نکلیں گے۔

امریکی شہروں جیسے نیو یارک اور کچھ حد تک واشنگٹن کے علاقے میں سفر کے لئے 
پبلک ٹرانسپورٹ پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ بقیہ مقامات پر ٹرام موجود ہے لیکن کچھ 
علاقوں تک محدود لہٰذا گاڑی کی ضرورت برقرار رہتی ہے۔ گاڑی چلانے کے شوقین 
افراد کے لئے امریکہ ایک عمدہ جگہ ہے۔ امریکی سڑکوں پر آپ کو ہر رنگ، نسل اور 
ساخت کی گاڑی نظر آئے گی۔ سڑکیں کشادہ اور عام طور پر عمدہ حالت میں ہیں 
(جن علاقوں میں برف پڑتی ہے، وہاں برف کو جمنے سے روکنے کے لئے نمک چھڑکا 
جاتا ہے جو سڑک کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے لہٰذا ہر سال نئے سرے سے سڑک 
کی کارپٹنگ ہوتی ہے)۔ امریکہ کے ایک کونے سے دوسرے تک کا سفر گاڑی پر کرنا 
ایک انوکھا تجربہ ہے اور بہت سے مہم جو اس تجربے سے گزرتے ہیں۔ گاڑیوں 
کی کثرت کے باعث شہری علاقوں اور سیاحتی مقامات کے قریب پارکنگ ڈھونڈنا 
جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لاہور کے باسی واقف ہیں کہ مال روڈ پر بھنگی 
کی توپ سے نہر تک جانے کے لئے کم ازکم پچاس اشاروں سے گزرنا پڑتا ہے۔ 
امریکی شہروں میں یہ چلن عام ہے۔ ہائی وے پر آپ اشاروں کے بغیر سفر کر سکتے 
ہیں لیکن شہری حدود میں ہر ایک یا دو کلومیٹر بعد ایک اشارہ آپ کا منتظر ہوتا 
ہے(قوانین کی خلاف ورزی پر ٹریفک کیمرے آپ کی نمبر پلیٹ کی تصویر اتار لیتے 
ہیں اور چالان آپ کے گھر پہنچ جاتا ہے)۔ان اشاروں کے علاوہ رہائشی علاقوں 
میں جا بجا سٹاپ سائن لگے ہیں جن پر رکنا لازمی ہے۔ دنیا بھر میں آپ بچے گود 
لے سکتے
 ہیں (یعنی اڈاپٹ کر سکتے ہیں) لیکن امریکہ میں آپ سڑک کا ایک مخصوص ٹکڑہ بھی 
اڈاپٹ کر سکتے ہیں اور بچوں کی طرح سڑک کے اس حصے کی صفائی ستھرائی آپ 
کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ گاڑیوں کی بہتات کے باعث موٹر مکینک کی بہت زیادہ 
اہمیت ہے۔ ٹریفک حادثے کے صورت میں عام طور پر ہاتھا پائی کی  نوبت نہیں 
آتی لیکن دونوں فریق ایک دوسرے کی گاڑی کا نمبر رکھ لیتے ہیں تاکہ انشورنس والوں کو
 تفصیلات سے آگاہ کیا جا سکے۔

امریکی شہروں میں قدم قدم پر آپ کو ’پان شاپس‘ ملیں گی۔ ان دوکانوں میں 
سپاری یا تمباکو والے پان دستیاب نہیں بلکہ یہ ساہو کاری کے اڈے ہیں۔ آپ 
اپنی کوئی بھی قیمتی چیز رہن رکھوا کر ان دوکانوں سے نقد رقم حاصل کر سکتے ہیں۔ 
یہ رقم ایک مخصوص دورانیے میں بمعہ سود واپس کرنی ہوتی ہے۔ جس کے پاس 
سرے سے رقم موجود نہیں اس نے بمعہ سود قرض کیسے واپس کرنا ہے۔ اس گھن 
چکر میں بہت سے لوگ آسان اقساط پر قرض حاصل کر لیتے ہیں اور عدم ادائیگی کی 
صورت میں اپنی گاڑی، گھر یا خواتین کے زیورات گنوا بیٹھتے ہیں۔

 حصہ پنجم

مایامی میں ڈھائی ماہ گزارنے کے بعد بمشکل اس شہر اور اس کے باسیوں کو 
الوداع کہا۔ اگلی منزل ریاست ٹیکساس کا شہر ہیو سٹن (Houston) تھی۔ 
امریکیوں سے سن رکھا تھا کہ ہیوسٹن میں گرمی بہت پڑتی ہے۔ یہاں آ کر معلوم 
ہوا کہ ہیوسٹن میں مئی کا موسم تو لاہور میں فروری کے موسم جیسا ہے۔ شکر دوپہر 
میں اگر ہوا چل رہی ہو(جو کہ اکثر چل رہی ہوتی ہے) تو گرمی قابل برداشت ہوتی 
ہے۔ مایامی میں مقامی لباس نیکر اور شرٹ تھا لہٰذا ازراہ مجبوری ہم نے بھی یہ 
لباس زیب تن کیا۔ ہیوسٹن میں پہلے پہل نیکر پہن کر باہر نکلے تو کچھ لوگوں نے 
’گھوریاں‘ کرائیں، جو ہمارے لئے حیرت کا باعث تھا (کیونکہ یہ کوئی پنجاب 
یونیورسٹی تو ہے نہیں)۔ بہت جلد ہی یہ احساس ہوا کہ یہاں ہوا کچھ زیادہ چلتی 
ہے اور بظاہر سورج سوا نیزے پر بھی ہو تو ہوا کی بدولت خنکی کا عالم ہوتا ہے۔ 
ایک روز میٹرو سٹیشن سے ٹھٹھرتے ہوئے گھر پہنچے تو ان ’گھوریوں‘ کی وجہ تسمیہ 
سمجھ آئی۔ ہیوسٹن میٹرو نے استنبول میٹرو کی یاد تازہ کرادی۔ مایامی یا نیو یارک کی 
طرح یہ میٹرو زیر زمین یا سطح زمین سے بیس فٹ بلندی پر نہیں بلکہ سڑک کے بیچ 
چلتی ہے۔ ہیوسٹن میٹرو تیرہ برس قبل شروع کی گئی تھی(یعنی ابھی نویں نکور ہے) 
اور جب میٹرو اپنے سٹیشن پر پہنچتی ہے تو ا س خاموشی سے کہ جیسے ویرانے میں 
چپکے سے بہار آجائے۔

حال ہی میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق تنوع (diversity) کے لحاظ سے 
نیویار ک امریکہ بھر میں پہلے نمبر پر ہے(یعنی سب سے زیاد ہ متنوع ہے) جب کہ 
ہیوسٹن تیسرے نمبر پر ہے۔ ہمیں یہاں پہنچے بمشکل ایک ماہ نہیں ہوا اور ہم اس 
دوران دس سے زائد ممالک سے آئے لوگوں سے مل چکے ہیں۔ پہلے اپارٹمنٹ میں 
الجیرین اور ہندوستانی اصحاب مقیم تھے۔ اس اپارٹمنٹ میں ایک ’چھڑے‘ 
ہندوستانی بھائی کے کمرے سے برآمد ہوتی موسیقی نے دس سال قبل سیٹلائٹ 
ٹاؤن مارکیٹ کے فلیٹ یاد کروا دیے۔ ہمیش ریشمیا اور قوالی کے بیچ کی یہ 
موسیقی ایک مخصوص عمر کے کنوارے نوجوان ہی سن سکتے ہیں۔ ہندوستانی بھائی 
لکھنو سے تشریف لائے تھے سو انہیں انگریزی میں بات کرنے پر جھاڑ پلائی اور اپنی 
’بھاشا‘ میں ان سے گفتگو کی۔ ایک دفعہ ہمارے ساتھ مقیم الجیرین بھائی کو 
نصرت فتح علی خان کی قوالی انگریزی میں سمجھانے کا فریضہ بھی خاکسار کو نبھانا پڑا۔ 
دوسرے مکان میں ہمارے ساتھ ایریٹریا، تائیوان، میکسکو، وینز ویلا اور کیوبا کے 
باسی رہائش پذیر ہیں۔ ہسپتال میں روز امریکی، میکسکن، ترکی، چینی، تائیوانی، 
ہندوستانی، سعودی اوراردنی افراد سے واسطہ پڑتا ہے۔

جس ہسپتال میں آ ج کل وقت گزار رہے ہیں، وہ گزشتہ دس سال سے امریکہ میں 
کینسر کے علاج کا بہترین مرکز ہونے کا اعزاز حاصل کر رہا ہے۔ ہسپتال کیا ہے، 
شیطان کی آنت ہے، صرف مرکزی عمارت کی تیس کے قریب منزلیں اور ہر منزل 
کئی اطراف پھیلی ہوئی، لہٰذا وہاں گزر گاہوں کی بھول بھلیوں میں گم ہونا بہت 
آسان ہے۔ مرکزی عمارت تین زیلی عمارات سےAir Bridge  کے ذریعے منسلک 
ہے اور ایک عمارت سے دوسری تک جانے کے لئے پیدل چلنے کے علاوہ شٹل کی 
سہولت موجود ہے(جیسا کہ کئی بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر ہوتا ہے)۔ اس 
ادارے کے تحت ہیوسٹن شہر میں چودہ عمارتیں موجود ہیں۔ مرکزی عمارت جس 
علاقے میں موجود ہے اسےTexas Medical Center کہتے ہیں اور وہاں موجود بلند 
وبالا عمارات کو دیکھ کر شبہ ہوتا ہے کہ شائد یہ رہائشی یا کمرشل علاقہ ہے لیکن وہ 
تمام عمارتیں دراصل ہسپتال اور میڈیکل کالج ہیں۔ ایک میل کے لگ بھگ اس 
علاقے میں دنیا کے بہترین ہسپتالوں میں سے چند، واقع ہیں۔ ہمارے ہسپتال میں 
دنیا بھر سے علاج کی خاطر لوگ آتے ہیں لہٰذا کئی بار یوں گمان ہوتا ہے گویا غلطی 
سے دبئی آنکلے ہوں۔ وہاں کیفے ٹیریا سے کچھ مخصوص دنوں میں دال چاول بھی 
ملتے ہیں (اور وہ دال چاول، پاکستانی ہسپتالوں میں ملنے والی غذا کی ہی مانند بد ذائقہ 
ہوتے ہیں)۔ہسپتال میں درجن کے قریب کیفے ٹیریا اور کافی شاپس موجود ہیں۔ 


  ہیوسٹن کا شمار امریکہ کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ اس وسعت کا اندازہ ہمیں ایک غلطی کے بعد ہوا۔ ہمارا قیام شہر کے مرکزی حصے کے قریب ہے جو میٹرو 
سٹیشن سے پندرہ منٹ کے پیدل فاصلے پر واقع ہے۔ ایک روز کاہلی کے باعث 
پیدل چلنے کی بجائے ایک بس میں سوار ہو گئے جو قیاس کے مطابق ہماری منزل 
کے قریب رکتی ہے۔ وہ بس، عام بسوں کی نسبت بہت بہتر حالت میں تھی اور 
اس میں کھڑے رہنے کی سہولت موجود نہیں تھی۔ ہم پہلے پہل گزرگاہ میں کھڑے 
رہے کہ منزل قریب ہی تھی لیکن ایک مہربان خاتون کی راہنمائی پر بس کی پچھلی 
سیٹ پر بیٹھ گئے۔ جب وہ بس رکے بغیر ہمارے ٹھکانے سے کچھ آگے پہنچی تو 
ہمارا ماتھا ٹھنکا  اور ساتھ کی نشست پر بیٹھی ایک خاتون سے پوچھا: ہم کس گلی جا 
رہے ہیں؟ ان کا جواب سن کر جی چاہا کہ سر پیٹ لیا جائے(اپنا)۔ ہم ایک نان 
سٹاپ بس پر سوار شہر کے جنوبی کنارے کی جانب رواں دواں تھے۔ امریکی ہائی 
وے پر آپ ایک دفعہ چڑھ جائیں تو پھر واپسی کا راستہ مشکل ہی سے ملتا ہے۔ 
بہرحال صبر اور بے بسی کی تصویر بن کر چالیس منٹ گزارے۔ جنوبی کنارے 
کے بس اڈے پر سب مسافر اتر گئے تو ڈرائیور انکل کو اپنی بپتا سنائی۔ انہوں نے 
دل جوئی کی اور بس شیڈول دیکھ کر ہمیں مطلع کیا کہ اسی اڈے سے ایک بس آدھ 
گھنٹے بعد شہر کی جانب روانہ ہو گی۔ اس غلطی کے باعث ہم پندرہ منٹ بچاتے 
بچاتے دو گھنٹے کھو بیٹھے۔ ہمیں ایک امتحان کی تیاری کے سلسلے میں شہر کے شمالی 
حصے کی جانب جانا پڑتا ہے اور وہ بس بھی چالیس منٹ لگاتی ہے۔ 

ہیوسٹن میں ایک علاقہ بنام  Hillcroft Avenueمہاتما گاندھی ڈسٹرکٹ کے نام سے 
جانا جاتا ہے۔ ایک دن ہم نے اس علاقے کا قصد کیا۔ سب سے پہلے بمبئی بیکری 
سے رنگ برنگی پاپڑی چاٹ کھائی۔ کاؤ نٹر پر موجود خاتون لاؤڈ سپیکر کا بے جا 
استعمال کر رہی تھیں جس پر محلے کے مولوی صاحب کی یاد تازہ ہو گئی۔ ہماری 
وہاں موجودگی کے دوران اس خاتون نے لاؤڈ سپیکر پر ایک صاحب کو Buffet کے 
دوران نئی پلیٹ استعمال نہ کرنے پر جھاڑ پلا ئی۔ اس کے بعد پٹیل جنرل سٹور کا 
رخ کیا جہاں ہر ممکن دیسی کھانا Frozen شکل میں دستیاب تھا۔ کئی ماہ بعد کیک 
رس کی شکل دیکھی۔ ٹہلتے ٹہلتے ایک اور مارکیٹ جا پہنچے جہاں کراچی سے تعلق 
رکھنے والے ایک ٹیلر ماسٹر سے اپنے بستے کی مرمت کروائی۔ ان کے مشورے پر 
چائے پینے ایک قریبی ریسٹورنٹ گئے اور وہاں سے چنے کی دال اور چپاتی نوش کی۔

 حصہ ششم


ہیوسٹن کے چک Hillcroft کلاں میں ٹریفک اشاروں پر گاڑیوں کے شیشے صاف 
کرنے والے اصحاب دیکھے، جس ریسٹورنٹ سے دال روٹی کھائی جب کہ وہاں ٹی 
وی پر کرکٹ کا کوئی پرانا میچ لگا ہوا تھا۔ اس علاقے میں موجود بسم اللہ ریسٹورنٹ 
کی حلوہ پوری، شادمان مارکیٹ کے غوثیہ ریسٹورنٹ یا لبرٹی میں کیپری کی حلوہ پوری 
سے کئی درجے بہتر تھی۔ البتہ وہاں پاکستانی نژاد بچوں کی چنگھاڑتی آوازوں نے مزہ 
کافی حد تک کرکرا کر دیا۔راجہ سویٹ ہاؤس سے کاجو والی برفی پیک کروائی اور پٹیل 
برادرز سے مسور کی دال خریدی۔ الغرض وطن سے دور وطن کے مزے حاصل 
کئے۔ہیوسٹن میں اوبر ڈرائیورز سے بہت سی دلچسپ باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک 
صاحب یسوع مسیح کے مجسمے سستے خرید کر منافع پر بیچا کرتے تھے، ایک حضرت 
اپنی سابقہ زندگی میں ا یئر پورٹ پر سامان کی چھانٹی کیا کرتے تھے اور ایک صاحب 
نے تہیہ کر رکھا تھا کہ جب تک ہم منزل تک نہیں پہنچتے(چونکہ اس وقت ہم کافی حد 
تک بھول بھلیوں میں گم ہو چکے تھے)وہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ 

 پطرس بخاری نے ایک صدی قبل کتوں پر ایک زبردست مضمون لکھا تھا، وہ 
مضمون مجھے ہر دوسرے دن یاد آتا رہا۔ بچپن میں میرا واسطہ جن کتوں سے پڑا، وہ 
بہت خونخوار قسم کے تھے لہٰذا بخاری صاحب کی طرح ہمارے تعلقات بھی 
کتوں سے ذرا کشیدہ ہی رہے ہیں۔ کئی ماہ قبل ایک عزیز دوست نے کہا تھا کہ 
امریکہ میں رہنا ہے تو کتوں سے تعلقات بہتر کرنے پڑیں گے۔ کسی رہائشی علاقے 
میں شام کے وقت چکر لگے تو وہاں مختلف عمروں کے افراد کتے ٹہلا تے نظر آئیں 
گے۔میرے محدود مشاہدے کے مطابق کتے اور اس کے مالک (یا مالکن) کی 
جسامت میں تناسب معکوس پایا جاتا ہے، یعنی اگر مالک ڈیل ڈول والا ہے تو کتا 
عام طور پر زیادہ بڑا نہیں ہو گا لیکن اگر مالکن نازک اندام ہے تو کتا، بھیڑیے کے 
سائزکا بھی ہو سکتا ہے۔ خوب صورت خواتین کے ہمراہ کتوں کو دیکھ کر ہم اپنا 
راستہ تبدیل کر لیتے تھے۔ کئی دفعہ جب فٹ پاتھ پر جگہ کم ہوتی تو ہمدرد مالکان کتے 
سمیت پرے ہو جاتے تاکہ ہم وہاں سے گزر سکیں۔ مایامی میں ایک دن کرائے 
کے مکان کی تلاش میں ایک جگہ پہنچا تو ایک عدد خوب رو خاتون بمعہ کتا وہاں موجود 
تھیں۔ سوچا کہ شائد انہی سے مکان کے سلسلے میں بات کرنی پڑے گی لیکن بات 
کرنے پر پتہ چلا کہ یہ محض ہماری غلط فہمی تھی۔ اس دوران ان کے کتے نے 
ہمارے ساتھ کتوں والا سلوک کرنے کی کوشش کی(چونکہ مالکن سے وہ سنبھل 
نہیں پا رہا تھا) لیکن ہم نے بھی اولمپک لیول کی دوڑ لگا کر اس سے فرار حاصل 
کیا۔ اس دوڑ کے دوران بابا بلہے شاہ بہت یاد آ یا: کتے میرے یار تے توں اتے 
نیں۔
ہیوسٹن میں قیام کے دوران سائیکل سواری کا موقعہ ملا۔ معلوم ہوا کہ سائیکل 
سواروں کو سڑک پر وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو گاڑی والوں کو ہیں۔ آپ سست 
رو لین (Lane) میں سائیکل چلائیں تو کوئی آپ کو پریشان نہیں کرے گا۔ قانون 
کے مطابق گاڑیاں آپ سے کم ازکم دو فٹ فاصلہ برقرا ر رکھیں گی۔ سائیکل 
سواروں کے لئے سڑک پر علیحدہ لینز بھی کئی مقامات پر موجود ہیں۔باقاعدگی سے 
سائیکل چلانے والوں نے بتایا کہ کئی دفعہ ٹریفک حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ 
گاڑی والوں کو ابھی جگہ دینے کی عادت نہیں۔ ہیوسٹن میں ایک سڑک اتوار کے 
روز سائیکل سواروں کے لئے مختص کر دی جاتی ہے۔ گراسری سٹور سے سودا 
سلف لانے کا کام ہم سائیکل پر ہی کرتے تھے۔ زندگی میں پہلی دفعہ سودا سلف 
خریدتے ہوئے اس کے وزن کا خاص خیال رکھنا پڑا، کیونکہ سب کچھ اپنے ناتواں 
کندھوں پر لاد کر ہی لے جانا تھا۔ گراسری سٹور میں حسب معمول اشیاء کی 
بہتات تھی۔

پاکستان کا باسی ہونے کے باعث ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے حالات، خاص طور پر سیاسی حالات ابتر ہیں۔ جنوبی امریکہ کے ممالک کے حالات میرے ناقص علم 
کے مطابق ہم سے بھی گئے گزرے ہیں۔ ہیوسٹن میں قیام کے دوران کولمبیا، 
ہنڈوراس، وینزویلا اور چلی کے باسیوں سے ملاقات کا موقعہ ملا اور ان ممالک کی 
تاریخ اور سیاسی صورت حال پر بات ہوئی۔ ان مباحث کے دوران کئی دفعہ یہ 
خیال آیا کہ پاکستان کی حالت ’اتنی‘ بھی بری نہیں جتنی ہم سمجھتے ہیں۔ وینزویلا 
میں آج کل شدید احتجاجی مظاہرے چل رہے ہیں، ہنڈوراس میں فوجی حکومت 
نے سویلین انتظام سنبھال رکھا ہے، کولمبیا میں کرپٹ سابق صدر، قومی اسمبلی کا 
حصہ بن کرموجودہ حکومت کی راہ میں روڑے اٹکا رہا
  ہے۔ ان تمام ممالک کی اندرونی پالیسی میں امریکہ کئی دہائیوں سے دخل اندازی کر ت
ا رہا ہے۔کولمبیا میں پچاس سال سے زائد گوریلا تحریک چلتی رہی جو کچھ برس قبل 
تھمی ہے۔نوے کی دہائی میں کراچی اور کولمبیا کا دارالحکومت بوگوٹا دنیا کے 
خطرناک ترین شہر مانے جاتے تھے۔ کچھ دن قبل ایک عالمی ادارے کی جانب سے 
جاری کردہ رینکنگ میں کولمبیا سیاحت کے لئے دنیا کا بد ترین ملک ہے جب کہ 
پاکستان اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے(جو کہ اعزاز کی بات نہیں)۔

 وطن سے دور کچھ وقت گزارنے کے بعد واپسی کا مرحلہ مشکل ہوتا ہے۔ ہماری 
مشکل میں اضافہ ایک طوفان نے کر دیا۔ لاہور واپسی کے لئے فلائٹ نیو یارک 
سے تھی اور ہمیں پہلے ہیوسٹن سے نیو یارک پہنچنا تھا۔ ہیوسٹن سے ایک جہاز پر 
سوار ہوئے جسے راستے میں اٹلانٹا نامی شہر میں رکنا تھا۔ جب ہم اٹلانٹا پہنچے تو جہاز 
ہوا میں چکر لگانے لگا، پائلٹ نے اعلان کیا کہ اٹلانٹا میں طوفان کے باعث ہم 
قریب ترین ہوائی اڈے کی جانب روانہ ہوں گے اور طوفان تھمنے کا انتظار کریں 
گے۔ تین گھنٹے تاخیر کے بعد ہم اٹلانٹا پہنچے تو معلوم ہوا کہ نیو یارک کے لئے جہاز اڑ 
چکا ہے اور اگلے روز تک کوئی فلائٹ میسر نہیں۔ یہ معلوم ہونے پر ہمارے پیروں 
تلے سے زمین کھسک گئی کیونکہ ہمیں اگلی صبح تک نیو یارک پہنچا تھا۔ مجبور ی کے 
تحت ایک مختلف ائیر لائن کی ٹکٹ حاصل کی اور رات کا بقیہ حصہ ہوائی اڈے 
 کے تھڑوں، کرسیوں اور صوفوں پر نیند کی تلاش میں گزارا۔ سامان ہمارا پہلی ائیر 
لائن کے جہاز پر ہی آیا چونکہ اس کی بکنگ نیو یارک تک ہو چکی تھی۔ نیو یارک میں 
دو بڑے ہوائی اڈے ہیں۔ پاکستان کے لئے ہماری فلائٹ مختلف ہوائی اڈے 
سے تھی سو اس جانب رواں دواں ہوئے۔ وہاں موجود شیطان کی آنت جتنی قطار  دیکھ کر حواس ایک دفعہ پھر خطا ہو گئے۔ گوروں کے دیس میں اتنا وقت گزار کر یہ 
بھول چکا تھا کہ ہمارے ہم وطن اولاد اور سامان کے معاملے میں سخی طبیعت 
رکھتے ہیں (لہٰذا چیک ان میں زیادہ وقت صرف ہوتا ہے)۔سامان چیک ان کرنے 
کے بعد سیکیورٹی چیک سے گزرنے کے بعد جہاز کی جانب دوڑ لگا دی اور مقررہ 
وقت سے پورے تین منٹ پہلے ہم اپنی نشست پر براجمان تھے۔   


       

 

No comments:

Post a Comment