Friday 1 March 2013

ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

چند روز قبل ایک سعودی باشندے فیہان الغامدی نے اپنی پانچ سالہ بیٹی کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ نہ صرف ناقابلِ بیان بلکہ ناقابلِ فراموش بھی ہے۔ اسلام اور شریعت کے نام لیواؤں نے البتہ عدل کی مثال قائم کرنے کے بجائے بیٹیاں زمین میں گاڑنے والے معاشرے کی یاد تازہ کردی اور موصوف کو ایک کثیر سی قید اور چند سکے ادا کرنے کی سزا سنائی گئی۔ ابنِ تیمیہ کی تعلیمات پر قائم ریاست سے ہمیں یہی توقع تھی۔

اس واقع سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ سعودی عرب میں چوری کرنے پر تو آپ کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے، نشہ آور چیزوں کی درآمد پر آپ کا سر قلم کیا جائے گا، لیکن اپنی بیٹی یا کسی سری لنکن آیا کو جان سے مار کر آپ سرخرو ہوسکتے ہیں۔
انسان چاند تک پہنچ گیا لیکن سعودی عرب میں آج تک عورتیں قانونی طور پر گاڑی نہیں چلا سکتیں، کیونکہ سعودی ابھی تک تیرھویں صدی میں رہ رہے ہیں۔

حال ہی میں سعودی حکومت نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے خواتین کو فارمیسی کی دکانوں پر کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہ خبر پڑھنے کے بعد سے ہم حیرت میں مبتلا ہیں کہ آخر ابھی تک سعودیوں نے حاتم طائی کی قبر منہدم کیوں نہیں کی؟ ابنِ تیمیہ کی روح تڑپ رہی ہوگی۔
تمام عالم میں مسلم اُمّہ کے نام کی ڈگڈگی بجانے والے، اپنے ملک کی شہریت تک تو دینا گوارا نہیں کرتے بلکہ اُمّہ کے دیگر ٹھیکے داروں کے لیے ڈرون طیارے بھی ان کی سرزمین سے اُڑائے جاتے رہے ہیں۔ ایمان سے بتائیے، اگر یہ کھلا تضاد نہیں تو کیا ہے؟ خواتین کی ڈرائیونگ سے تو یقینا ایمان خطرے میں ہے لیکن شام، بحرین، یمن اور پاکستان میں دہشت گردی کی کھلم کھلا ترویج کس شرعی حکم کے مطابق ہے؟

ملک اسحاق اور حافظ سعید کو سالانہ بنیادوں پر ملنے والا ’چندہ‘ جن نیک کاموں میں استعمال ہو رہا ہے، اس کے متعلق سوال کیوں نہیں اُٹھایا جاتا؟ ہندوستان اور جنوب ایشائی ممالک سے جو لڑکیاں غیر قانونی طور پر سعودی عرب لائی جاتی ہیں، اُن کی عصمت اور غیرت کا خیال ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کو کیوں نہیں آتا؟
ہمارے معاشرے میں سعودی عرب کو کچھ زیادہ ہی عزت سے نوازا جاتا ہے۔ اس عزت افزائی کی ایک وجہ تو وہاں پر ہمارے مقدس مقامات کی موجودگی ہے، اس کی ایک وجہ ہمارے وہ عزیز اقربا بھی ہیں جو 80 کی دہائی سے وہاں دن رات کی محنت کے بعد ریال (اور چند کرم فرماؤں کے مطابق شدت پسندی کے جراثیم) اپنے گھر والوں کو ارسال کر رہے ہیں۔
اس عزت اور عقیدت کے مارے ہم عقل اور استدلال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکمران خاندان کی حکمرانی 1925 سے پہلے محض نجد کے علاقے تک محیط تھی اور پچھلے چودہ سو سال میں کبھی بھی انہوں نے مقامات مقدسہ پر راج نہیں کیا۔ خلافت عثمانیہ کی بندر بانٹ کے بعد انگریزوں کی حمایت اور امداد کے بل بوتے پر جزیرہ نما عرب پہ قبضہ کرنے والے آج خود کو ’خادمین حرمین شریفین‘ کہتے ہیں۔
بات چل ہی نکلی ہے تو لگے ہاتھوں اِبن تیمیہ صاحب کی کہانی بھی سُن لیجیے۔ تُرکی کے ایک گاؤں حران سے تعلق رکھنے والے تقی الدین ابن تیمیہ نے سلف یعنی ابتدائی دور کے مسلمانوں کے اعمال کو شریعت سمجھنے کے لیے ایک معیار قرار دیا۔
قادریہ سلسلے سے تعلق رکھنے والے ابن تیمیہ نہ صرف اہلِ تشیع کے سخت مخالف تھے بلکہ مزاروں کی زیارت کرنے کو بھی شرک سمجھتے تھے۔ انہوں نے پہلی دفعہ قانونی طور پر فوجی عدالتوں کو گواہی کے بغیر یک طرفہ طور پر سزا ئیں سنانے کا اختیار دیا۔
علاوہ ازیں، حالت جنگ میں دوسرے مسلمانوں کو قتل کرنے کی اجازت بھی جناب نے عطا کی (ان فتاویٰ کو موجودہ دور کے تکفیری آج تک استعمال کر رہے ہیں)۔ ابو غریب اور گوانتامو پر اعتراض کرنے والے نہیں جانتے کہ قید کے دوران تشدد کے حق میں قانونی توجیح تاریخ میں پہلی دفعہ ابن تیمیہ کے خاص شاگرد ابن قائم نے پیش کی۔ سن 1326 میں ابن تیمیہ کو مزار پرستی کے خلاف آواز بلند کرنے پر قید میں ڈال دیا گیا اور دو سال بعد قید کے دوران ہی انکا انتقال ہوا۔ وفات کے بعد دمشق میں واقع ان کے مزار پر کئی صدیوں تک زائرین کا تانتا بندھا رہا۔
ہماری سعودی عرب یا اس کے حکمرانوں سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں، مجھ عاجز کی تو آپ سے محض یہ التجا ہے کہ براہ کرم اپنے گریبان پر نظر ڈالیں اور عقیدت کے بھنور سے باہر نکل کر حالات و واقعات پر نظر دوڑائیں۔
انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جس طرح عافیہ صدیقی کی سزا پر واویلا مچایا گیا ویسے ہی اس پانچ سالہ معصوم بچی پر کئے گئے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔



No comments:

Post a Comment