(Appeared first on Dawn Urdu)
اوریا کا بوریا
برطانیہ نے
نوے سال تک
براہ راست برصغیر پر
حکومت قائم رکھی۔
اس تمام عرصے
کے دوران حکومت
کا کام افسر
شاہی کے ذمے
تھا۔ سن 1857
سے تقسیم تک
برطانوی افسروں کی
تعداد کبھی ایک
ہزار سے تجاوز
نہیں کی، بلکہ تقسیم کے
وقت متحدہ ہندوستان
میں کل چھے
سو چالیس برطانوی
افسر تعینات تھے
اور انہوں نے
کروڑوں کی آبادی
اور ایک وسیع و عریض
علاقے پر برطانوی
راج قائم رکھا۔
ایک برطانوی وزیر اعظم نے
اس افسر شاہی
کو برطانوی راج
کا آہنی ڈھانچہ
قرار دیا تھا۔
وقت کے ساتھ
ساتھ اس سروس میں ہندوستانی
افراد کو بھی
جگہ ملی اور
انکی تربیت برطانوی
افسروں جیسی ہی کی جاتی۔
پاکستان بننے کے
بعد اس سروس
کے لوگ پاکستان
میں پی سی ایس
(پاکستان سول سروس)
کے نام سے جانے گئے۔
قیام پاکستان
کے بعد سیاست
دانوں کی نااہلی
کے باعث افسر
شاہی کو حکومت
میں حصہ لینے
کا موقع ملا
اور غلام محمد،
چوہدری محمد علی وغیرہ نے بہتی گنگا میں ہاتھ
دھوئے۔ ان کے
بعد آنے والوں
نے براہ راست حکومت
تو نہیں کی البتہ ایوب
خان کے قریبی
حلقے میں ضرور
شامل رہے، جیسے
قدرت اللہ شہاب اور الطاف
گوہر۔ ان افراد
میں سے بہت
سوں نے مصنف بننے کی
کوشش بھی کی۔
اس ضمن میں
چوہدری محمد علی
نے ایک کتاب
لکھی جو پاکستانی
کی ’نظریاتی‘ جہت کی جانب
پہلا قدم شمار کی جاتی
ہے۔ الطاف گوہر
نے بھی اس میدان میں
مشق آزمائی کی اور
شہاب صاحب نے بھی۔ان کتابوں
میں عام طور
پر اپنے کارناموں
کی تفصیل بیان کی جاتی
ہے اور پاکستان
کی جملہ خامیوں
پر اپنی ماہرانہ
رائے سے نوازا
جاتا ہے۔
ہمارے زمانہء ِ
طالب علمی کے
دوران کسی محفل میں جب بھی اردو
ادب کی بات
چھڑتی تو چند
مخصوص کتابوں اور
مصنفین کا تذکرہ
ضرور ہوتا تھا۔
ان کتابوں میں
شہاب نامہ سر
فہرست تھی(آج کل
’بابا صاحبا‘ کا یہ مقام ہے)۔ ہمارے
ایک استاد کے
مطابق ’شہاب نامہ دراصل
بارہ مسالوں کی
چاٹ کی مثل
ہے۔اس میں قاری
کو مزاح بھی
ملتا ہے، تلقین بھی،
افسانہ بھی،تصوف بھی
اور کچھ کچھ
تاریخ بھی۔‘ قدرت
اللہ شہاب کا شمار
ملک کے ان
مصنفین میں ہوتا
ہے جو ساری
عمر افسر شاہی
کا حصہ رہے۔
اپنے عروج کے
دور میں موصوف
ایوب خان کے
دست راست سمجھے
جاتے تھے اور
انہوں نے اردو
لکھاریوں کی ایک
گلڈ تشکیل دی،
جو ادیبوں کے
سالانہ جلسے حکومتی
خرچ پر منعقد
کرواتی رہی۔ کہا
جاتا ہے کہ اس گلڈ کی بدولت
ایوب خان کی
حکومت نے اپنے
آپ کو تنقید
سے محفوظ کر لیا اور اسی بہانے
ادب کی درگاہ
پر بھی پھول
چڑھ گئے۔شہاب کے دیگر کارناموں
میں پاکستان ٹائمز
اور دیگر ترقی
پسند اخبارات کا
سرکاری تحویل میں لیے جانا
اور 1963 کا جابرانہ پریس
آرڈینینس بھی شامل ہیں۔
شہاب صاحب نے ساری عمر
سرکار کی نوکری
میں گزاری اور
اواخر عمر میں
صوفی ہو گئے۔ شہاب
صاحب کے سلسلے
کو انکی وفات
کے بعد کچھ دیر زوال آیا
لیکن
عصر حاضر میں
اس سلسلے کے ایک نئے گدی نشین
کا ظہور دیکھنے
کو ملا ہے۔
جہادی اخبار
ضرب مومن کے لیے باقاعدہ
لکھنے کے بعد یہ صاحب
کافی عرصے سے دائیں بازو
کے ایک اخبار
کے صفحات پر
براجمان ہیں۔ کچھ
عرصہ قبل ہم نے انکا
ذکر کیا کہ
کس طرح وہ
حضرت شعیب کی
قوم کے زوال
کا سبب سرمایہ
دارانہ جمہوریت کو
ٹھہراتے ہیں، یا زیارت ریذیڈنسی
کے نذر آتش
ہونے پر انہوں
نے دو قومی
نظریے کو خدا کی جانب
سے تقسیم قرار دیا۔ جی، میرا اشارہ
حضرت اوریا مقبول
جان کی جانب
ہے، جنہیں چند شریر دوست یوریا مقبول
کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
بین الاقوامی اخبارات اور ٹی وی چینلوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جو افراد کسی مخصوص شعبے یا مضمون میں مہارت رکھتے ہیں، ان سے اسی مضمون یا شعبے پر رائے کے اظہار کے لیے کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی معاشیات کا ماہر ہے تو وہ اخبار میں اسی موضوع پر لکھے گا اور اپنی رائے کا اظہار کرے گا، ایسا ممکن نہیں کہ وہ طرز معاشرت یا طب کے متعلق بھی کہانی بننا شروع کر دے۔ ہمارے ملک میں فی الحال ایسا کوئی رواج نہیں اور اس کے باعث ہمارے کالم نویس اور ٹی وی اینکر(اور اکثر مہمان) ہر فن مولا سمجھے جاتے ہیں۔ فلسفے سے لے کر طب اور دودھ کے بڑھتے نرخوں تک، ہر مسئلے پر ان خواتین و حضرات کو عبور حاصل ہے۔
بین الاقوامی اخبارات اور ٹی وی چینلوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جو افراد کسی مخصوص شعبے یا مضمون میں مہارت رکھتے ہیں، ان سے اسی مضمون یا شعبے پر رائے کے اظہار کے لیے کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی معاشیات کا ماہر ہے تو وہ اخبار میں اسی موضوع پر لکھے گا اور اپنی رائے کا اظہار کرے گا، ایسا ممکن نہیں کہ وہ طرز معاشرت یا طب کے متعلق بھی کہانی بننا شروع کر دے۔ ہمارے ملک میں فی الحال ایسا کوئی رواج نہیں اور اس کے باعث ہمارے کالم نویس اور ٹی وی اینکر(اور اکثر مہمان) ہر فن مولا سمجھے جاتے ہیں۔ فلسفے سے لے کر طب اور دودھ کے بڑھتے نرخوں تک، ہر مسئلے پر ان خواتین و حضرات کو عبور حاصل ہے۔
اوریا صاحب کی زندگی
کی کہانی انہی کی زبانی
سن لیجیے:
’میں نے سات
سال کی عمر میں شاعری
شروع کی، بارہ
سال کی عمر میں میری
پہلی غزل ایک
مؤقر ادبی جریدے
میں چھپی، سولہ
سال کی عمر میں پہلا
افسانہ میں نے
حلقہ ارباب ذوق میں پڑھا۔ سن
1988 میں میرا
شعری مجموعہ ’قامت‘
شائع ہوا۔ اس
کے بعد میں
نے بیس سال ٹیلی
ویژن پر
ڈرامے لکھے جن میں پانچ سیریل اور
پچاس سے زیادہ
انفرادی ڈرامے شامل ہیں۔
میری بنیادی تعلیم
نفسیاتی امراض کے
علاج سے متعلق
ہے۔ میں یہ
مضمون بلوچستان یونیورسٹی
میں پڑھاتا رہا ہوں۔لاہور مینٹل
ہسپتال میں میں
نے دو سال
تربیت حاصل کی
ہے۔‘ یہ ساری
تمہید باندھنے کے
بعد اسی مضمون
میں اوریا صاحب
نے سعادت حسن
منٹو کی قبر
پر لاتیں رسید کی ہیں
اور انکو جنسی ہیجان میں
مبتلا قرار دیا
ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ارشاد
فرما دیا کہ
معاشرے میں فحاشی
کی لت منٹو
کے افسانوں جیسے دیگر افسانوں
کی بدولت پھیلتی
ہے۔ اوریا صاحب
نے جانے کیسی
نفسیات پڑھی اور
پڑھائی، کہ انہیں
ہمارے معاشرے کی
گھناؤنی رسومات، دقیانوسی
رواج اور جنسی
تعلیم کا فقدان
نظر نہیں آتا،
منٹو کے افسانے
ہی دکھائی دیتے ہیں۔
اوریا صاحب
نے پاکستانی کالم
نگاروں کی سنت
پر عمل کرتے
ہوئے ہر مسئلے
میں ٹانگ ضرور
اڑائی ہوتی ہے۔
کبھی انہیں خفیہ
تنظیمیں عوام کی
سوچ قابو کرتے
نظر آتی ہیں
تو کبھی و ہ
تحریک طالبان پاکستان
کے نام عشقیہ
خطوط لکھتے نظر
آتے ہیں، کبھی
شام میں برپا
خانہ جنگی انہیں
قیامت کی قربت
کا نشان دکھائی
دیتی ہے اور
کبھی ہندو جوتشیوں
کی پیش گوئیوں کی بنیاد پر
وہ پاک بھارت جنگ
کا اعلان کرتے ہیں۔ اسی
طرح وہ انگریزی
زبان کی جگہ
طلبہ کو عربی اور فارسی
پڑھانے کے حق میں ہیں۔
تاریخ اور
حقائق میں گڑبڑ
کرنے کی روش
جاوید چوہدری، حامد میر،
جنید سلیم اور
اس قماش کے دیگر
افراد کا خاصہ
رہا ہے البتہ
اوریا مقبول صاحب
اس فن کو نئی انتہاؤں
تک لے جانے
کا اعزاز رکھتے
ہیں۔ معاشیات کے
مضمون پر صاحب کا خصوصی
کرم ہے۔ ان
کے مطابق دنیا
کے تمام سرکاری
بینک ایک خفیہ
ادارے کے ماتحت
کام کرتے ہیں
جہاں یہ فیصلہ
کیا جاتا ہے
کہ کس ملک کو غریب
رکھنا ہے اور
کسے امیر کرنا
ہے۔ انکے مطابق
کرنسی نوٹ اور
اے ٹی ایم مشینیں اور بینک دجالی
نظام کی گواہی
دیتے ہیں جسے یاجوج ماجوج
نے نافذ کر
رکھا ہے۔ ایک
کالم میں صرف
اپنی علمیت جھاڑنے
کے لیے
KIBOR
کا ترجمہ تک غلط کر دیا۔ یہ بھی انکشاف کیا کہ دنیا
نے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے اسلامی بینکاری کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ ایک جگہ لکھا کہ برطانوی راج نے برصغیر میں ترقیاتی کام کیا لیکن کبھی قرضہ نہیں لیا(اس قسم کی بونگی میٹرک کے طلباء بھی نہیں مارتے)۔ ایک کالم میں نیوٹن غریب کو سونے کے سکوں کی جگہ کرنسی نوٹ جاری کروانے کا ذمہ دار ٹھہرا دیا اور ایک دن انکشاف کیا کہ یہود دراصل یاجوج ماجوج کی جدید شکل ہیں۔
KIBOR
کا ترجمہ تک غلط کر دیا۔ یہ بھی انکشاف کیا کہ دنیا
نے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے اسلامی بینکاری کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ ایک جگہ لکھا کہ برطانوی راج نے برصغیر میں ترقیاتی کام کیا لیکن کبھی قرضہ نہیں لیا(اس قسم کی بونگی میٹرک کے طلباء بھی نہیں مارتے)۔ ایک کالم میں نیوٹن غریب کو سونے کے سکوں کی جگہ کرنسی نوٹ جاری کروانے کا ذمہ دار ٹھہرا دیا اور ایک دن انکشاف کیا کہ یہود دراصل یاجوج ماجوج کی جدید شکل ہیں۔
پاکستانی دائیں بازو کی روایت
زندہ رکھتے ہوئے
اوریا صاحب کسی بھی مسئلے
کا
صر ف ایک
پہلو(جو انکے موقف
سے مطابقت رکھتا
ہو)پر روشنی ڈالتے
ہیں۔ منٹو والے
مضمون میں انہیں
’ٹھنڈا گوشت‘ ، ’بلاؤز‘
اور ’کھول دو‘
تو نظر آئے،
’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ ،
’انکل سام کے
نام خطوط‘ یا ’نیا قانون‘
کا ذکر کرنا
مناسب نہیں سمجھا ،
اسی طرح مصر میں
اخوان
کی حکومت کے
خلاف ’سیکولر‘ اقدامات
پر طعن و تشنیع تو ہوئی لیکن
اس عمل کی حمایت کرنے
والی سلفی جماعت
اور مشرق وسطی کی مسلمان
حکومتیں نظر نہ آئیں۔ بنگلہ دیش
میں غلام اعظم
کو ملنے والی
سز ا پر ایک
پورا کالم لکھ مارا لیکن
البدر یا الشمس
کی جانب اشارہ
تک نہیں کیا
بلکہ بنگلہ دیش کی
موجودہ ترقی پر
بوگس اعتراضات کا
پلندہ پیش کیا۔
اس موضوع پر
انکے ایک کالم
سے حامد میر
کے والد صاحب
کے سنہری الفاظ
ملاحضہ کریں:
’ مشرقی پاکستان، بھارت،
مشرقی پاکستان کے
ہندوؤں اور پاکستان
کے کمیونسٹ اور
قوم پرست دانشوروں
کی مسلسل محنت
سے ٹوٹا‘۔
وارث میر صاحب
کافی عرصہ نوائے
وقت میں کالم
لکھتے رہے لہذا
انکی ’نظریاتی اُپج‘
کافی واضح ہے
البتہ اوریا مقبول
نے بھی ایسے
لغو الفاظ لکھتے
وقت کسی تاریخی
کتاب کا مطالعہ
کرنے یا حوالہ
دینا مناسب نہیں
سمجھا۔
اوریا صاحب
نہ جانے کس بوٹی کا
استعمال کرتے ہیں
جو انہیں ہر
سمت سے سازش کی بو آتی ہے
اور وہ یک طرفہ
حقائق کی بنیاد
پر الم غلم
کہانیاں گھڑ لیتے ہیں۔ گزشتہ
دنوں صاحب بہادر
نے ملالہ کو
موضوع سخن بنایا
اور حسب معمول
اس پندرہ سالہ
بچی کے خوب
لتے لیے(اس کار خیر
میں انصار عباسی
اور طلعت حسین
نے بھی اگلے
روز مقدور بھر
حصہ ڈالا)۔ کچھ تفشیش
پر معلوم ہوا
کہ اوریا صاحب
کا وہ کالم
جولائی 2013 میں ایک برطانوی
اخبار میں چھپنے
والے مضمون کا
حرف بہ حرف
چربہ ہے۔ یعنی
پاکستانی افسر شاہی
کے علم بردار، تنقید
میں بھی عقل
سے زیادہ نقل
سے کام لینے
کے شوقین ہیں۔
سچ پوچھیں تو ہم افسر شاہی سے اسی قسم کے نظریات کی توقع کرتے ہیں۔ اسکی وجہ جاننے کے لیے پچھلی دہائی میں مقابلے کے امتحانات کے کچھ سوالات ملاحضہ کریں: ’دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اسلام کی بڑائی اور شان وشوکت پر تفصیلی مضمون لکھیں‘ ، ’اسلام میں خلافت کے تصور کو تفصیل سے بیان کریں‘ ، ’اسلام کے سیاسی اور عدالتی نظام پر روشنی ڈالیں‘۔ ’سانحہ مشرقی پاکستان کے بنیادی اسباب بیان کریں اور اس واقعہ کے پاکستان کی تاریخ پر کیا اثرات مرتب ہوئے‘ ، ’برطانوی اور ہندووانہ سازش کے نتیجے میں پاکستان کی تخلیق قائد کی سوچ کے مطابق نہیں ہو سکی، اس پہلو پر روشنی ڈالیں‘۔
سچ پوچھیں تو ہم افسر شاہی سے اسی قسم کے نظریات کی توقع کرتے ہیں۔ اسکی وجہ جاننے کے لیے پچھلی دہائی میں مقابلے کے امتحانات کے کچھ سوالات ملاحضہ کریں: ’دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اسلام کی بڑائی اور شان وشوکت پر تفصیلی مضمون لکھیں‘ ، ’اسلام میں خلافت کے تصور کو تفصیل سے بیان کریں‘ ، ’اسلام کے سیاسی اور عدالتی نظام پر روشنی ڈالیں‘۔ ’سانحہ مشرقی پاکستان کے بنیادی اسباب بیان کریں اور اس واقعہ کے پاکستان کی تاریخ پر کیا اثرات مرتب ہوئے‘ ، ’برطانوی اور ہندووانہ سازش کے نتیجے میں پاکستان کی تخلیق قائد کی سوچ کے مطابق نہیں ہو سکی، اس پہلو پر روشنی ڈالیں‘۔