1947 کی بات ہے۔ پاکستان معرض وجود میں آ چکا تھا۔ فیض صاحب دہلی سے لاہور منتقل ہوئے تو نئے ملک کی حالت دیکھ کر دم بخود رہ گئے اور اپنے جذبات کو کچھ یوں بیان کیا:
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
تھا انتظار جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
تھا انتظار جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
اجالا بیشک داغ داغ تھا لیکن تقسیم کے بعد شہر لاہور کی ادبی محفلوں کو چار چاند لگ گئے اور اس وقت جو ادب تخلیق کیا گیا، اس جیسا آج تک نہیں کیا جا سکا۔
وقت تبدیل ہوا۔ ابتدائی دنوں کا خمار ٹوٹا اور لاہور کی ادبی سرگرمیوں میں کمی آئی کیونکہ روزگار کے غم دلفریب ہونا شروع ہو گئے۔
وقت گزرتا گیا اور ادبی محفلیں کثیر تر ہوتی گئیں۔ طواف کو نکلے چاہنے والے، نظریں جھکا کر اور جسم و جاں بچا کے چلنے لگے۔ لبوں سے آزادی چھین لی گئی اور ’بول‘ کی صدا لگانے والے ملک بدر کر دیے گئے۔ پاک ٹی ہاؤس ٹائروں کی دکان میں تبدیل ہو گیا، کافی ہاؤس بند ہوتے گئے۔
اس جمود کے عالم میں لاہور ادبی میلے کا انعقاد ایک خوش آئند قدم تھا، اور امید ہے کہ اس طرز پر ہر برس کم از کم ایک تقریب ضرور منعقد کی جائے گی۔
تقریب کا آغاز معروف صحافی مظہر علی خان کے صاحب زادے طارق علی کی تقریر سے ہوا۔ موصوف نے دنیا بھر کے انقلابیوں کا ذکر کیا لیکن ادب سے متعلق کوئی بات کرنے سے گریز اختیار کیا۔
اسی دن کے ایک اور سیشن میں جناب نے سونامی پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا جس پر وہاں کثیر تعداد میں موجود برگر بچوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ ساری عمر بائیں بازو کی سیاست کا نعرہ بلند کرنے والوں کو سونامی پارٹی میں کیا خاص بات نظر آئی، علماء اس معاملے میں ابھی تک خاموش ہیں۔
ایک دانشور عزیزالحق صاحب نے ایسے لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ ’رہے ساری عمر یوپی کے نواب کے نواب اور سکھاتے رہے اہل پنجاب کو مزدور تحریک کے اسرار و رمو ز‘
تقریب میں ہمارا پسندیدہ سیشن پاکستانی فلموں کے بدلتے کردار سے متعلق تھا۔ ہم نے دیکھا کہ وقت ڈھلنے کے ساتھ کس طرح پاکستانی فلم سازوں، ہدایت کاروں اور لکھاریوں کی ترجیحات بدلتی رہیں، حتی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب چنگیز خان کو مسلمان دکھایا گیا اور وہ ’اللہ کی رحمت کا سایہ‘ کہلایا۔
لاہور ادبی میلے سے ہمارا سب سے بڑا گلہ یہ رہا کہ تمام اہتمام ایک مخصوص طبقے کے لیے رہا، حتی کہ لاہور کے مہنگے ترین تعلیمی اداروں (جن میں سے ایک کا افتتاح برطانوی واسرائے نے کیا اور دوسرے کو برطانیہ کے گرامر سکولوں کی طرز پر قائم کیا گیا) کے طلباء پر ادبی میلے میں حاضری لازم قرار دی گئی۔
ان بچوں کی موجودگی کے باعث چند مضحکہ خیز واقعات بھی رونما ہوئے۔ ایک سیشن میں انتظار حسین صاحب نے جب دو چار منٹ اردو میں بات شروع کی تو ہال خالی ہونا شروع ہو گیا، اور یہ لازوال فقرہ سننے کو ملا :’چلو بھئی یہاں تو اب شعروشاعری شروع ہو گئی ہے‘۔ لاہور جیسے شہر میں اردو کا اس طرح جنازہ نکلتے، نہ پہلے دیکھا، نہ سنا۔
ایک موقع پر منٹو صاحب پر ہونے والے سیشن میں ان کی بھتیجی ڈاکٹر عائشہ جلال سے اصرار کیا گیا کہ گفتگو انگریزی میں کریں۔ مانا کہ بہت سے غیر ملکی مہمان بھی وہاں موجود تھے لیکن لاہور میں منعقد میلے میں منٹو پر بات اگر اردو میں نہ کی جا سکے تو یہ شرم کا مقام ہے۔
خورشید کمال عزیز صاحب، جو کے کے عزیز کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، اپنی کتاب ’تاریخ کا قتل‘ میں لکھ گئے کہ پنجاب کے لوگوں نے کبھی اپنی زبان کی قدر نہیں کی، پہلے اردو کی ترویج و ترقی کا بیڑہ اٹھایا تو کبھی انگریزی کی جانب راغب ہوئے، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نہ ہی اردو ہماری زبان ہے نہ ہی انگریزی۔ یہ دونوں زبانیں تو نوآبادیاتی زبانیں ہیں اور ہماری زبان تو دراصل پنجابی ہے۔
لاہور پنجاب کا دارلحکومت ہے اور یہاں منعقدہ ادبی میلے میں پنجابی پر کچھ نہ کچھ بات ضرور ہونی چاہیے تھی، لیکن جس طرز کا طبقہ بلایا گیا تھا ان کے ہاں پنجابی صرف انکے ڈرائیور حضرات ہی بولتے اور سمجھتے ہیں۔ وارث شاہ، بلھے شاہ، بابا فرید، منیر نیازی، استاد دامن اور امرتا پریتم کی ارواح کو اس طرح کی زیادتی پر بہت تکلیف پہنچی ہوگی۔
اردو پر دو عدد سیشن ہوئے جن میں سامعین تو ایک طرف، چند مقررین نے ہی تشریف لانا گوارا نہیں کیا۔ منٹو اور فیض کا تذکرہ تو بہت ہوا لیکن یار لوگ تو اب صاف کہتے ہیں کہ فیض اور منٹو ادب اور جدوجہد سے زیادہ فیشن کی علامات بن چکے ہیں، یا بنا دیے گئے ہیں۔
ہمیں انگریزی لکھنے والوں سے کوئی پرخاش نہیں مگر جس ملک میں ایک آبادی کی ایک بڑی تعداد آپ کی لکھائی نہ پڑھ سکے، وہاں آپ انگریز ی کی بجائے ولندیزی زبان بھی لکھ لیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ ہاں اگر آپ نے باہر کی دنیا کے لیے لکھنا ہے تو بصد شوق لکھیے، خیالات کسی ایک زبان کی میراث نہیں ہوتے۔
ادبی میلے کے خو ش آئند پہلووں میں بچوں اور نوجوان لکھاریوں کے لیے کیے گئے سیشن شامل تھے۔ اسی طرح ادب میں طوائف کے کردار پر ایک عمدہ سیشن ہوا۔ ادب اور خواتین پر بھی ایک سیشن رکھا گیا جس میں پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خواتین مثلاََ عمیرہ احمد کو مدعو ہی نہیں کیا گیا۔ میلے میں شریک ایک صاحب کے مطابق، جو ایک ہسپتال کی ڈسپنسری میں کام کرتے ہیں، میلے کا ماحول اور اس کے شرکا ء کسی دوسرے سیارے کے مکین لگ رہے تھے۔
کے کے عزیز نے پنجابیوں کی ایک اور صفت بھی بیان کی تھی، یعنی ’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘ لیکن اپنے علاقے اور اس کے لوگوں کی ہمیں کوئی خاص پرواہ نہیں۔
قابل عزت صحافی اور قلم کار محمد حنیف صاحب نے گم شدہ بلوچوں کا نوحہ پڑھا جو قابل داد ہے لیکن ان ہزاروں ’پنجابیوں‘ کا ذکر تک نہیں کیا جن کا واحد جرم صرف یہ تھا کہ وہ پنجابی ہونے کے باوجود بلوچستان میں رہائش پذیر تھے، ان ہزاروں معصوموں کا نوحہ کون لکھے گا؟
بہرحال حنیف صاحب نے کم از کم فوج کے پنجابی ہونے کی غلط فہمی اپنی آزاد نظم کے ذریعے ضرور دور کی اور کہا کہ ’نواب نو روز خان کو جس کتاب پر ہاتھ رکھ کر جھوٹا وعدہ کیا گیا، وہ کتاب پنجابی زبان میں نہیں تھی، اس کے بیٹوں کو جس پھانسی کی رسی سے لٹکایا گیا وہ رسی اچھرہ سے نہیں بھیجی گئی تھی، وہ راکٹ جو اکبر بگٹی کو لگا کوئی سیالکوٹ سے تیار ہو کر نہیں گیا تھا۔ فوج نہ سندھی ہے، نہ بلوچی، نہ پٹھان، نہ پنجابی، فوج تو بس فوج ہوتی ہے‘
ان تمام تلخ حقیقتوں کے باوجود ہم اپنی کشت ویراں سے ناامید نہیں اور توقع کرتے ہیں کہ آئندہ سالوں میں ادبی میلوں کے انعقاد میں بہتری دیکھنے کو ملے گی اور اجالا مزید داغ داغ نہیں رہے گا۔